ملک بھر میں بالعموم اور پشاور میں بالخصوص پولیو کے خاتمے کے لیے حکام نے آئندہ 22 اپریل سے چھ روزہ انسداد پولیو مہم میں پانچ سال کی بجائے 10 سال تک کی عمر کے بچوں کو پولیو سے بچاؤ کے قطر ے پلانے کا فیصلہ کیا ہے۔
اس سے پہلے صرف پانچ سال تک کی عمر کے بچوں کو پولیو سے بچاؤ کے قطرے دیئے جاتے تھے۔
وزیر اعظم کے انسداد پولیو مہم کے لیے فوکل پرسن بابر بن عطاء کا کہنا تھا کہ حال ہی میں باجوڑ میں پولیو سے متاثر ہونے والے بچے کی عمر پانچ سال سے زیادہ تھی اس لئے اب پانچ سال سے زائد عمر کے بچوں کو پولیو سے بچاؤ کے قطرے پلوانے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔
بابر بن عطاء نے کہا کہ اسی طرح کی صورت حال کچھ عرصہ پہلے تک اسلام آباد میں تھی جہاں کے کچھ علاقوں سے ماحولیاتی نمونے مسلسل مثبت آ رہے تھے۔ جس کے بعد ضلعی انتظامیہ نے ان علاقوں میں تجرباتی بنیادوں پر بچوں کی عمر 5 سال سے بڑھا کر 10 سال کر دی۔ یہ حکمت عملی کامیاب رہی اور پچھلے کئی مہینوں سے اسلام آباد کے ان علاقوں کے ماحولیاتی نمونے منفی آ رہے ہیں۔
ڈپٹی کمشنر پشاور ڈاکٹر عمران شیخ کا کہنا ہے کہ پولیو کے خاتمے کا عمومی طریقہ 5 سال سے کم عمر بچوں کو ویکسین پلانا ہے۔ تاہم ایسے گنجان آباد علاقے جہاں صحت و صفائی کا خاص انتظام نہ ہو اور لوگوں کی بڑی تعداد ناقص غذا استعمال کر رہی ہو، وہاں ماحول میں پولیو کا وائرس مستقل طور پر گردش میں رہتا ہے اور چھوٹے بچوں کے ساتھ ساتھ بڑی عمر کے بچے بھی پولیو وائرس کے پھیلاؤ کی وجہ بنتے ہیں۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ پشاور میں پولیو ویکسین پینے والوں کی عمر کی حد اس لیے بڑھائی گئی ہے کیونکہ یہاں ماحول میں پولیو کا وائرس مستقل طور پر گردش میں ہے اور گٹر کے پانی سے پولیو وائرس کے نمونے 2017 سے مسلسل مثبت آ رہے ہیں۔ جس کی وجہ سے یہاں پولیو کے پھیلاؤ کے خطرات زیادہ ہیں۔
ٹیکنیکل فوکل پرسن ڈاکٹر امتیاز علی شاہ نے کہا ہے کہ صوبہ خیبر پختونخوا بھر میں 22 اپریل سے شروع ہونے والی انسداد پولیو مہم کے دوران مجموعی طور پر 76 لاکھ 20 ہزار 606 بچوں کو پولیو سے بچاؤ کے قطرے پلائے جائیں گے جن میں ضم ہونے والے اضلاع کے 887324 بچے بھی شامل ہیں۔ جب کہ مہم میں 6 ماہ سے 5 سال تک کی عمر کے تمام بچوں کو وٹامن اے کے قطرے بھی پلائے جائیں گے۔ یہ مہم پشاور میں 6 روز جاری رہے گی۔
صوبے کے دیگر اضلاع میں 3 روزہ مہم کے دوران 5 سال تک کی عمر کے بچوں کو پولیو سے بچاؤ کے قطرے پلائے جائیں گے۔
22 اپریل سے شروع ہونے والی انسداد پولیو مہم مقامی آبادی اور صوبے میں موجود افغان پناہ گزینوں اور ٹی ڈی پیز کے کیمپوں میں بھی جاری رہے گی۔ اس مہم میں تربیت یافتہ پولیو ہیلتھ ورکرز پر مشتمل 27 ہزار 252 ٹیمیں حصہ لیں گی جن میں 23 ہزار 455 موبائل،1ہزار 861 فکسڈ، 1ہزار127 ٹرانزٹ اور 809 رومنگ ٹیمیں شامل ہیں۔ ان ٹیموں کی موثر نگرانی کے لئے 6 ہزار 295 ایریا انچارج بھی مقرر کیے گئے ہیں۔
انسداد پولیو مہم کے اہل کاروں کی سیکورٹی کے لیے بھی جامع انتظامات کیے گئے ہیں جس میں 34 ہزار 219 پولیس اہل کار سیکورٹی کے فرائض سرانجام دیں گے۔
پاکستان میں رواں سال پولیو کے 6 کیسز رپورٹ ہوئے ہیں جن میں سے 4 خیبر پختونخوا کے مختلف علاقوں سے جب کہ ایک ایک پنجاب اور سندھ سے ہیں۔
اس وقت صرف پاکستان اور افغانستان دو ایسے ملک ہیں جہاں پولیو وائرس موجود ہے اور اس کے خاتمے کے لیے دنوں ممالک نے ایک مشترکہ فیصلے کے تحت سرحد عبور کرنے والے بچوں کے ساتھ ساتھ بڑوں کو بھی پولیو سے بچاؤ کے قطرے پھیلائے جا رہے ہیں۔