پولیو سے بچاؤ کے عالمی دن کے موقع پر پاکستان کے وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے اپنے ایک پیغام میں کہا ہے کہ انسانی جسم کو اپاہج کر دینے والے اس وائرس خلاف ملک کے ’’کچھ حصوں میں حتمی جنگ‘‘ لڑی جا رہی ہے۔
اُن کا کہنا تھا کہ اس وائرس کے خلاف فیصلہ کن کوششوں میں کامیابی کے لیے حکومت پرعزم ہے۔
عالمی ادارۂ صحت کے پاکستان میں سربراہ ڈاکٹر محمد اردگانی نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا ہے کہ گزشتہ دو برسوں میں پاکستان میں انسدادِ پولیو کی مہم میں خاطر خواہ کامیابی ملی ہے۔
’’آپ جانتے ہیں کہ 2014ء میں پولیو کے 306 کیسز رپورٹ ہوئے اور اب یہ تعداد کم ہو کر 2017ء میں (اس وقت تک) پانچ رہ گئی ہے۔‘‘
ڈاکٹر محمد اردگانی کا کہنا تھا کہ اس کامیابی کے پیچھے بہت سے عوامل ہیں جن میں ضلعی سطح تک ایک مربوط طریقہ کار اور ملک میں امن و امان کی صورتِ حال کا بہتر ہونا ہے۔
پاکستان اور افغانستان کے علاوہ نائیجریا کا شمار دنیا کے ان تین ملکوں میں ہوتا ہے جہاں پولیو کے وائرس پر تاحال پوری طرح قابو نہیں پایا جا سکا ہے۔
عالمی ادارۂ صحت کے پاکستان میں نمائندے کا کہنا تھا کہ اس خطے سے پولیو کے مکمل خاتمے کے لیے پاکستان اور افغانستان کے درمیان تعاون بہت اہم ہے۔
اُن کا کہنا تھا کہ پاکستان اور افغانستان کے درمیان سرحد بہت طویل ہے اور ایک سے دوسرے ملک جانے والے خاندانوں کے ساتھ سفر کرنے والے بچوں کو پولیو سے بچاؤ کے قطرے پلانا بہت اہم ہے۔
ڈاکٹر محمد ارگانی نے کہا کہ دونوں پڑوسی ممالک کے درمیان ’’ہم تواتر کے ساتھ تجربات کا تبادلہ کرتے ہیں۔۔۔۔ تاہم طویل سرحد اور بڑی تعداد میں لوگوں کی آمد و رفت کے سبب سرحدی علاقوں میں (پولیو سے بچاؤ) کے قطرے پلانے کے آپریشن کو جاری رکھنے کی ضرورت ہے۔‘‘
پاکستان میں حالیہ برسوں میں حکومت کی طرف سے پولیو وائرس کے خاتمے کی کوششوں میں علمائے دین سے مدد لی گئی تاکہ وہ اپنے پیغامات کے ذریعے بتا سکیں کہ بچوں کو اس وائرس سے بچاؤ کے لیے قطرے پلانا اہم ہے۔
پاکستان میں عہدیداروں کا کہنا ہے کہ پولیو وائرس کے خاتمے کے لیے اسلام آباد اور کابل کو مشترکہ کوششوں کو مربوط بنانا ہوگا اور اسی سلسلے میں رواں ماہ اسلام آباد میں عالمی ادارۂ صحت کی ایک علاقائی کانفرنس کے موقع پر پاکستان کی وزیرِ مملکت برائے نیشنل ہلیتھ سروسز سائرہ افضل تارڑ اور افغانستان کے وزیر صحت فیروز خان کے درمیان ایک ملاقات بھی ہوئی تھی۔
واضح رہے کہ پاکستان میں سلامتی کے خدشات کے سبب بھی ماضی میں انسدادِ پولیو مہم متاثر ہوتی رہی ہے کیوں کہ افغان سرحد سے ملحق بعض قبائلی علاقوں میں حکومت کی عمل داری نہ ہونے کے سبب وہاں تک پولیو سے بچاؤ کے قطرے پلانے والی ٹیموں کی رسائی نہیں تھی۔
تاہم پاکستانی حکام کا کہنا ہے کہ دہشت گردوں کے خلاف کامیاب فوجی کارروائیوں کے بعد اب صورتِ حال میں بہتری آئی ہے اور اُن علاقوں میں بھی کم عمر بچوں کو پولیو وائرس سے بچاؤ کے قطرے پلائے جا رہے ہیں جہاں پہلے ایسا کرنا ممکن نہیں تھا۔