مذہبی و سیاسی جماعت جماعت اسلامی کے امیر سراج الحق کا کہنا ہے کہ ان کی طرف سے نواز انتظامیہ اور حزب اختلاف کی جماعت تحریک انصاف کے درمیان سیاسی مفاہمت کی کوشش میں کوئی خاطر خواہ کامیابی نا ہو سکی اور دونوں فریق میں کوئی معاہدے طے نا ہو پایا۔
اتوار کو وائس آف امریکہ سے گفتگو میں انہوں نے بتایا کہ گزشتہ سال کے عام انتخابات میں مبینہ دھاندلیوں سے متعلق معاملات کے حل کے لیے حکومت اور تحریک انصاف کو تجاویز پیش کی گئی ہیں تاہم حزب اختلاف کی طرف سے ابھی تک اس کا کوئی جواب نہیں ملا۔
’’اُمید ہے کہ 14 اگست کو پاکستان کسی بحران سے بچ جائے گا۔ ظاہر ہے وہ (عمران خان) کس قیمت پر اپنے پروگرام کو ملتوی کر دیں۔ ایک سیاسی جماعت سے تو آپ یہ توقع نہیں کر سکتے کہ وہ اپنے اعلان کو ایسے واپس لے لے۔‘‘
جماعت اسلامی کے امیر نے حکومت سے مذاکرات کے بعد اتوار کو تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان سے ملنا تھا تاہم تحریک انصاف کی ترجمان کے مطابق یوم آزادی کے موقع پر اسلام آباد میں ہونے والے احتجاجی دھرنے کی تیاریوں کی مصروفیات کی وجہ سے یہ ملاقات نا ہو سکی۔
ادھر تحریک انصاف کی کور کمیٹی نے اپنے اجلاس میں فیصلہ کیا کہ دھرنے سے پہلے حکومت کے ساتھ کسی قسم کے مذاکرات ممکن نہیں اور عمران خان کو نظر بند یا حفاظتی تحویل میں لینے کی کوشش کی گئی تو جماعت کے کارکنوں کی طرف سے مزاحمت کی جائے گی۔
تحریک انصاف کی ترجمان شیریں مزاری کا اجلاس کے بعد صحافیوں سے گفتگو میں کہنا تھا۔
’’اس حکومت کو ہٹنا پڑے گا۔ میاں نواز شریف کو استعفیٰ دینا پڑے گا۔ اپنے کارکنوں کو آج پیغام گیا ہے کہ وہ اپنے ساتھ تمام ضروری سامان لیں کر آئیں، پتا نہیں کتنے دن یہاں رہنا پڑے، کتنے دن آزادی مارچ چلے۔‘‘
نواز انتظامیہ میں شامل عہدیدار کے مطابق تحریک انصاف اور ڈاکٹر طاہرالقادری کی جماعت پاکستان عوامی تحریک کے احتجاج کو غیر جمہوری اور ان کے بقول حکومت کے اقتصادی ترقی کے منصوبوں میں رخنا ڈالنے کی کوشش ہے۔
تحریک انصاف کے احتجاج کے پیش نظر اسلام آباد کے مختلف چوراہوں کے قریب انتظامیہ کی طرف سے لوہے کے خالی کنٹینر رکھے جا رہے ہیں جبکہ شاہراہوں پر پولیس و رینجرز کے اضافی گشت کے ساتھ ساتھ ناکوں پر شہر میں داخل ہونے والی گاڑیوں کی تلاشی لی جا رہی ہے.
تحریک انصاف اور عوامی تحریک کے عہدیداروں کے مطابق پنجاب میں ان کے کارکنوں کو احتجاج میں شرکت سے روکنے کی کوششیں کی جا رہی ہیں اور انھیں مبینہ طور پر حراست میں لیا جا رہا ہے۔
لیکن حکمران جماعت کی قانون ساز ماوری میمن کا کہنا تھا کہ ’’ہم نہیں بے جا ردعمل پیش کر رہے ہیں بلکہ ان کی طرف سے مبالغہ آرائی کی جارہی ہے۔ کہتے ہیں 20 ہزار لوگوں کی گرفتاریاں ہوگئیں۔ ارے اتنے لوگ ہم کہاں جا کر چھپائیں گے۔ 14 اگست کو بھی اور 15 اگست کو بھی ہم کام کر رہے ہوں گے۔ کچھ نہیں ہوتا۔‘‘
ادھر جون کے وسط میں پولیس کے ساتھ جھڑپ میں ایک درجن سے زائد ہلاک ہونے والے سیاسی کارکنوں کو خراج عقیدت پیش کرنے اور نواز انتظامیہ کی پالیسیوں کے خلاف پاکستان عوامی تحریک نے اتوار کو لاہور اجتماع کا انعقاد کیا۔