رسائی کے لنکس

پاکستان کا سیاسی نقشہ پھر تبدیل، متحدہ حکومت میں شامل


وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی ایم کیو ایم کے مرکز کا دورہ کرتے ہوئے، انکے دائیں حلف اٹھانے والے وفاقی وزیر بابر غوری ہیں۔ فائل
وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی ایم کیو ایم کے مرکز کا دورہ کرتے ہوئے، انکے دائیں حلف اٹھانے والے وفاقی وزیر بابر غوری ہیں۔ فائل

منگل کو پاکستان میں سیاسی نقشہ ایک بار پھر اس وقت تبدیل ہو گیا جب وفاقی کابینہ سے الگ ہونے والی متحدہ قومی موومنٹ پانچ ماہ اور 14 دن کے بعد واپس وفاقی حکومت میں شامل ہو گئی اور یوں ملک میں حکمران اتحاد کو اپوزیشن پر موجودہ حکومت میں پہلی بار واضح برتری حاصل ہو گئی۔ مبصرین اسے حکمران جماعت پیپلزپارٹی کی رواں سال کی دوسری بڑی سیاسی فتح قرار دے رہے ہیں۔

گزشتہ سال دسمبر میں جے یو آئی (ف) اور متحدہ قومی موومنٹ کی وفاقی کابینہ سے علیحدگی کے بعد پیپلزپارٹی کی حکومت انتہائی کمزور تصور کی جانے لگی تھی اور ناقدین نے حکومت گرنے کی الٹی گنتی بھی شروع کر دی تھی۔ اس موقع پر پیپلزپارٹی اور اس کے اتحادیوں کو قومی اسمبلی میں صرف163 اراکین کی حمایت حاصل تھی جبکہ اپوزیشن کی تعداد 177 ہو گئی تھی۔ یوں حکمراں اتحاد پر اپوزیشن کو چودہ سیٹوں کی واضح برتری حاصل تھی۔ یہی وجہ تھی کہ اعلیٰ ایوانوں کے مختلف حصوں سے کبھی تو وزیر اعظم سید یوسف رضا گیلانی کی تبدیلی اور کبھی حکومت کے خاتمے کی آوازیں سنائی دینے لگی تھیں۔

اس مشکل صورتحال کا حکمراں جماعت نے ڈٹ کر مقابلہ کیا اورناقدین کی پروا کیے بغیر مفاہمتی پالیسی کے ذریعے اپنے دور حکومت میں اس وقت سب سے بڑی کامیابی حاصل کی جب دو مئی دو ہزار گیارہ کو قومی اسمبلی میں تیسری بڑی جماعت مسلم لیگ ق کو وفاقی حکومت کا حصہ بنانے میں کامیاب ہوئی اور یوں اسے مزید 50 اراکین اسمبلی کی حمایت حاصل ہو گئی۔ اس طرح حکمران اتحاد کی تعداد 213 ہو گئی جبکہ اپوزیشن کے اراکین کی تعداد کم ہو کر 127 رہ گئی۔ ق لیگ کی شمولیت کے صرف آٹھ دن بعد ہی دس مئی کو ایم کیو ایم بھی دوبارہ وفاقی کابینہ کا حصہ بن گئی اور یوں ایم کیو ایم کے 25 اراکین کی شمولیت سے قومی اسمبلی میں حکمراں اتحاد کی تعداد 238 ہو گئی ہے اور اپوزیشن کی تعداد صرف 103 رہ گئی۔

اس وقت قومی اسمبلی میں حکمراں اتحاد میں پیپلزپارٹی کے 127، مسلم لیگ ق 50، متحدہ قومی موومنٹ 25، عوامی نیشنل پارٹی 13، مسلم لیگ فنکشنل 5، بی این پی ( عوامی )، نیشنل پیپلزپارٹی اور پیپلزپارٹی شہید بھٹو کی ایک، ایک اور فاٹا سے 15 اراکین شامل ہیں جبکہ اپوزیشن میں مسلم لیگ نون کے 91، جے یو آئی ف کے 8 اور فاٹا کے تین اراکین شامل ہیں۔

اس طرح موجودہ حکومت کے لئے دسمبر دو ہزار دس سب سے زیادہ مشکل مہینہ ثابت ہوا جب تیرہ دن کے وقفے سے جے یو آئی (ف) اور متحدہ قومی موومنٹ نے وفاقی کابینہ کو خیر باد کہہ دیا جبکہ مئی دو ہزار گیارہ سب سے خوش آئند رہا جس میں آٹھ دن کے فرق سے مسلم لیگ ق اور متحدہ قومی موومنٹ وفاقی کابینہ کا حصہ بن گئیں۔

ماہرین کے مطابق ان دونوں جماعتوں کے پیپلزپارٹی کے ساتھ اتحاد سے نہ صرف پاکستا ن میں حکومت مضبوط ہو گئی ہے بلکہ آئندہ سال کا وفاقی بجٹ جو ایک موقع پر حکومت کیلئے درسر بن گیا تھا، کا مسئلہ بھی حل ہو گیا ہے۔

XS
SM
MD
LG