پاکستان میں موسم میں حدت کے اضافے کے ساتھ ساتھ سیاسی ماحول میں بھی خاصی گرمی دیکھی جارہی ہے جہاں حکومت مخالف جماعتوں کی طرف سے حکمران مسلم لیگ ن کے خلاف احتجاجی تحریکیں شروع کرنے کے اعلانات آئے روز سامنے آ رہے ہیں۔
کینیڈا میں مقیم پاکستان عوامی تحریک اور ادارہ منہاج القرآن کے روح و رواں طاہر القادری نے رواں ہفتے اعلان کیا کہ وہ پاکستان آ کر حکومت کے خلاف مظاہروں میں شامل ہوں گے اور ان کے بقول وہ ہم خیال جماعتوں کے رہنماؤں سے ملاقاتیں کر کے ان کے ساتھ مل کر لائحہ عمل بھی ترتیب دیں گے۔
سابق کرکٹر عمران خان کی جماعت پاکستان تحریک انصاف گو کہ صوبہ خیبرپختونخواہ میں اقتدار میں ہے لیکن مرکز میں وہ حزب مخالف کی دوسری بڑی جماعت ہے۔
اس جماعت نے انتخابات میں مبینہ دھاندلیوں کے خلاف ہفتہ وار احتجاج کا سلسلہ شروع کر رکھا ہے اور ہر جمعہ کو ان کے کارکن اور رہنما الیکشن کمیشن کے سامنے احتجاجی مظاہرہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔
تحریک انصاف کا موقف ہے کہ مسلم لیگ ن نے مختلف حلقوں میں مبینہ طور پر دھاندلی کر کے نشستوں پر کامیابی حاصل کی اور یہ جماعت دھاندلی کی تحقیقات کا مطالبہ کرتی چلی آ رہی ہے۔
ایک سینیئر قانون ساز اور متعدد بار وفاقی وزیر رہنے والے شیخ رشید نے عوامی مسلم لیگ کے نام سے سیاسی جماعت بنا رکھی ہے لیکن وہ تحریک انصاف کے ساتھ مل کر حکومت کے خلاف باآواز بلند احتجاج کرتے نظر آتے ہیں۔
حکومت اس ساری سیاسی گرما گرمی کو جمہوریت کے لیے خطرہ قرار دیتے ہوئے کہتی آئی ہے کہ احتجاج ہر کسی کا جمہوری حق ہے لیکن حکومتی عہدیداروں کے بقول مخالفین کا رویہ اور طریقہ کار نامناسب ہے۔
تحریک انصاف کے قانون ساز عارف علوی نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں حکومتی تنقید کو بے جا قرار دیتے ہوئے کہا کہ منصفانہ انتخابات کی بات کرنے کو جمہوریت مخالف نہیں کہا جاسکتا ہے۔
"اگر منصفانہ انتخابات کے لیے کوئی بات کی جائے تو کیا یہ جمہوریت کی مخالفت ہے؟ ہر عام آدمی یہی کہے گا کہ یہ جمہوریت کی شان ہے کہ منصفانہ انتخابات ہوں۔ ان (حکومت) کے پاس منطقی دلائل باقی نہیں رہے، ہم کہہ رہے ہیں کہ چار حلقوں کو ٹیسٹ کیس کے طور پر چلا لیں۔"
وزیراعظم نواز شریف نے حال ہی میں قومی اسمبلی کے اسپیکر اور ایوان بالا کے چیئرمین کو ایک خط لکھ کر انتخابی اصلاحات سے متعلق پارلیمانی کمیٹی کی تشکیل کا کہا ہے۔
وزیراعظم کے خصوصی معاون برائے قومی امور عرفان صدیقی نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ انتخابی اصلاحات کے بارے میں بہت سا کام سابقہ حکومت کر چکی ہے اور باقی موجودہ حکومت کرنے جا رہی ہے۔
"ایک تو یہ کہا گیا کہ دنیا میں رائج جدید ٹیکنالوجی جس سے یہ یقین دہانی ہو سکے کہ انتخابات میں کسی طرح کی کوئی جعل سازی ممکن نہ ہو وہ متعارف کروانے کے لیے سفارش کریں، اس سے بھی اہم بات انھوں (وزیراعظم) نے کہا کہ اگر الیکشن کمیشن کو مضبوط بنانے اس نظام کو مضبوط بنانے کے لیے آئین میں ترمیم بھی ضروری ہے تو وہ سب مل کر سفارش کریں۔"
یہ امر قابل ذکر ہے کہ حزب مخالف کی اکثر جماعتوں کی طرف سے مسلم لیگ ن کی حکومت کے خلاف احتجاج کے باوجود قومی اسمبلی میں حزب مخالف کی سب سے بڑی جماعت پاکستان پیپلز پارٹی حکومت کو یہ یقین دہانی کروا چکی ہے کہ وہ حکومت کے خلاف کسی بھی غیر جمہوری طریقے کی حمایت نہیں کرے گی۔
کینیڈا میں مقیم پاکستان عوامی تحریک اور ادارہ منہاج القرآن کے روح و رواں طاہر القادری نے رواں ہفتے اعلان کیا کہ وہ پاکستان آ کر حکومت کے خلاف مظاہروں میں شامل ہوں گے اور ان کے بقول وہ ہم خیال جماعتوں کے رہنماؤں سے ملاقاتیں کر کے ان کے ساتھ مل کر لائحہ عمل بھی ترتیب دیں گے۔
سابق کرکٹر عمران خان کی جماعت پاکستان تحریک انصاف گو کہ صوبہ خیبرپختونخواہ میں اقتدار میں ہے لیکن مرکز میں وہ حزب مخالف کی دوسری بڑی جماعت ہے۔
اس جماعت نے انتخابات میں مبینہ دھاندلیوں کے خلاف ہفتہ وار احتجاج کا سلسلہ شروع کر رکھا ہے اور ہر جمعہ کو ان کے کارکن اور رہنما الیکشن کمیشن کے سامنے احتجاجی مظاہرہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔
تحریک انصاف کا موقف ہے کہ مسلم لیگ ن نے مختلف حلقوں میں مبینہ طور پر دھاندلی کر کے نشستوں پر کامیابی حاصل کی اور یہ جماعت دھاندلی کی تحقیقات کا مطالبہ کرتی چلی آ رہی ہے۔
ایک سینیئر قانون ساز اور متعدد بار وفاقی وزیر رہنے والے شیخ رشید نے عوامی مسلم لیگ کے نام سے سیاسی جماعت بنا رکھی ہے لیکن وہ تحریک انصاف کے ساتھ مل کر حکومت کے خلاف باآواز بلند احتجاج کرتے نظر آتے ہیں۔
حکومت اس ساری سیاسی گرما گرمی کو جمہوریت کے لیے خطرہ قرار دیتے ہوئے کہتی آئی ہے کہ احتجاج ہر کسی کا جمہوری حق ہے لیکن حکومتی عہدیداروں کے بقول مخالفین کا رویہ اور طریقہ کار نامناسب ہے۔
تحریک انصاف کے قانون ساز عارف علوی نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں حکومتی تنقید کو بے جا قرار دیتے ہوئے کہا کہ منصفانہ انتخابات کی بات کرنے کو جمہوریت مخالف نہیں کہا جاسکتا ہے۔
"اگر منصفانہ انتخابات کے لیے کوئی بات کی جائے تو کیا یہ جمہوریت کی مخالفت ہے؟ ہر عام آدمی یہی کہے گا کہ یہ جمہوریت کی شان ہے کہ منصفانہ انتخابات ہوں۔ ان (حکومت) کے پاس منطقی دلائل باقی نہیں رہے، ہم کہہ رہے ہیں کہ چار حلقوں کو ٹیسٹ کیس کے طور پر چلا لیں۔"
وزیراعظم نواز شریف نے حال ہی میں قومی اسمبلی کے اسپیکر اور ایوان بالا کے چیئرمین کو ایک خط لکھ کر انتخابی اصلاحات سے متعلق پارلیمانی کمیٹی کی تشکیل کا کہا ہے۔
وزیراعظم کے خصوصی معاون برائے قومی امور عرفان صدیقی نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ انتخابی اصلاحات کے بارے میں بہت سا کام سابقہ حکومت کر چکی ہے اور باقی موجودہ حکومت کرنے جا رہی ہے۔
"ایک تو یہ کہا گیا کہ دنیا میں رائج جدید ٹیکنالوجی جس سے یہ یقین دہانی ہو سکے کہ انتخابات میں کسی طرح کی کوئی جعل سازی ممکن نہ ہو وہ متعارف کروانے کے لیے سفارش کریں، اس سے بھی اہم بات انھوں (وزیراعظم) نے کہا کہ اگر الیکشن کمیشن کو مضبوط بنانے اس نظام کو مضبوط بنانے کے لیے آئین میں ترمیم بھی ضروری ہے تو وہ سب مل کر سفارش کریں۔"
یہ امر قابل ذکر ہے کہ حزب مخالف کی اکثر جماعتوں کی طرف سے مسلم لیگ ن کی حکومت کے خلاف احتجاج کے باوجود قومی اسمبلی میں حزب مخالف کی سب سے بڑی جماعت پاکستان پیپلز پارٹی حکومت کو یہ یقین دہانی کروا چکی ہے کہ وہ حکومت کے خلاف کسی بھی غیر جمہوری طریقے کی حمایت نہیں کرے گی۔