رحمٰن ملک حکومت کے ایسے وزیر برائے داخلہ امور ہیں جن کی ہر بات ہر شہری کان لگا کر سنتا ہے۔
اب یہی دیکھ لیجئے کہ انہوں نے کراچی میں صرف دو روز بعد بڑے پیمانے پر قتل وغارت گری کے آغاز سے متعلق جس خدشے کا اظہار کیا اس نے جہاں شہر پر بظاہر خوف کے سائے مزید گہرے کر دیئے وہیں قومی اسمبلی میں بھی اس کی گونج سنائی دے رہی ہے۔
وفاقی وزیر داخلہ نے انکشاف کیا تھا کہ کراچی میں فروری کے آغاز پر بڑے پیمانے پر قتل و غارت گری کا خطرہ ہے اور شہر کو گھمسان کی جنگ میں تبدیل کرنے کی کوشش ہو رہی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ صورتحال کے پیش نظر وہ جلد آئی ایس آئی سمیت تمام خفیہ اداروں کا اجلاس طلب کر رہے ہیں جس میں شہر کو خون خرابے سے بچانے کیلئے حکمت عملی مرتب کی جائے گی۔
بقول رحمٰن ملک شہر کا امن تباہ کرنے میں طالبان ملوث نہیں بلکہ باہر بیٹھے ملک دشمن لوگ کالعدم تنظیموں کے کارکنان اور مقامی لوگوں کو استعمال کریں گے۔
قومی اسمبلی کے اجلاس میں ایم کیو ایم کے رکن وسیم اختر نے وزیر داخلہ کے اس بیان پر سخت رد عمل ظاہر کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ کراچی سے متعلق رحمان ملک کا بیان انتہائی غیر مناسب اور غیر سنجیدہ ہے، ایک ذمہ دار کی جانب سے اس طرح کے بیان پر ایوان میں وضاحت پیش کرنی چاہیے۔ غوث بخش مہر اور عبدالقادر بلوچ نے بھی کہا کہ اس بیان سے کراچی میں شدید خوف و ہراس پھیل گیا ہے۔
کراچی میں گزشتہ سال فائرنگ اور پرتشدد واقعات میں 2000 افراد لقمہ اجل بنے اور یہ تسلسل رواں سال بھی جاری ہے۔ منگل کو سرجانی ٹاوٴن، شہید ملت روڈ، کورنگی، منظور کالونی اور لانڈھی میں مزید پانچ افراد کو قتل کردیا گیا، جس کے بعد جنوری کے پہلے تیس دنوں میں مجموعی طور پر ہلاکتوں کی تعداد تقریباً 200 ہو چکی ہے، جن میں سات پولیس اہلکار، سیاسی و مذہبی جماعتوں کے رہنما و کارکنان بھی شامل ہیں۔
شہر میں بھتہ خوری اور اغوا برائے تاوان کے جرائم بھی عروج پر ہیں۔ جنوری میں تین واقعات ایسے پیش آئے جن میں نامعلوم افراد نے پہلے لوگوں کو اغوا کیا اور پھر تشدد کرکے لاشیں شہر کے مختلف علاقوں میں پھینک دیں۔ زیادہ تر لاشیں اولڈ سٹی ایریا سے ملیں۔ سیاسی مبصرین کے مطابق، اس تمام تر تناظر میں وفاقی وزیر داخلہ کا آئندہ ماہ بڑے پیمانے پر قتل و غارت گری کے خدشے نے شہریوں کے خوف و ہراس کو مزید بڑھا دیا ہے۔
اب یہی دیکھ لیجئے کہ انہوں نے کراچی میں صرف دو روز بعد بڑے پیمانے پر قتل وغارت گری کے آغاز سے متعلق جس خدشے کا اظہار کیا اس نے جہاں شہر پر بظاہر خوف کے سائے مزید گہرے کر دیئے وہیں قومی اسمبلی میں بھی اس کی گونج سنائی دے رہی ہے۔
وفاقی وزیر داخلہ نے انکشاف کیا تھا کہ کراچی میں فروری کے آغاز پر بڑے پیمانے پر قتل و غارت گری کا خطرہ ہے اور شہر کو گھمسان کی جنگ میں تبدیل کرنے کی کوشش ہو رہی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ صورتحال کے پیش نظر وہ جلد آئی ایس آئی سمیت تمام خفیہ اداروں کا اجلاس طلب کر رہے ہیں جس میں شہر کو خون خرابے سے بچانے کیلئے حکمت عملی مرتب کی جائے گی۔
بقول رحمٰن ملک شہر کا امن تباہ کرنے میں طالبان ملوث نہیں بلکہ باہر بیٹھے ملک دشمن لوگ کالعدم تنظیموں کے کارکنان اور مقامی لوگوں کو استعمال کریں گے۔
قومی اسمبلی کے اجلاس میں ایم کیو ایم کے رکن وسیم اختر نے وزیر داخلہ کے اس بیان پر سخت رد عمل ظاہر کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ کراچی سے متعلق رحمان ملک کا بیان انتہائی غیر مناسب اور غیر سنجیدہ ہے، ایک ذمہ دار کی جانب سے اس طرح کے بیان پر ایوان میں وضاحت پیش کرنی چاہیے۔ غوث بخش مہر اور عبدالقادر بلوچ نے بھی کہا کہ اس بیان سے کراچی میں شدید خوف و ہراس پھیل گیا ہے۔
کراچی میں گزشتہ سال فائرنگ اور پرتشدد واقعات میں 2000 افراد لقمہ اجل بنے اور یہ تسلسل رواں سال بھی جاری ہے۔ منگل کو سرجانی ٹاوٴن، شہید ملت روڈ، کورنگی، منظور کالونی اور لانڈھی میں مزید پانچ افراد کو قتل کردیا گیا، جس کے بعد جنوری کے پہلے تیس دنوں میں مجموعی طور پر ہلاکتوں کی تعداد تقریباً 200 ہو چکی ہے، جن میں سات پولیس اہلکار، سیاسی و مذہبی جماعتوں کے رہنما و کارکنان بھی شامل ہیں۔
شہر میں بھتہ خوری اور اغوا برائے تاوان کے جرائم بھی عروج پر ہیں۔ جنوری میں تین واقعات ایسے پیش آئے جن میں نامعلوم افراد نے پہلے لوگوں کو اغوا کیا اور پھر تشدد کرکے لاشیں شہر کے مختلف علاقوں میں پھینک دیں۔ زیادہ تر لاشیں اولڈ سٹی ایریا سے ملیں۔ سیاسی مبصرین کے مطابق، اس تمام تر تناظر میں وفاقی وزیر داخلہ کا آئندہ ماہ بڑے پیمانے پر قتل و غارت گری کے خدشے نے شہریوں کے خوف و ہراس کو مزید بڑھا دیا ہے۔