پاکستان میں حکمران جماعت پیپلزپارٹی کیلئے وقت کم رہ گیا ہے جبکہ کام بڑھتا جارہاہے اور یہی وجہ ہے کہ صدر زرداری نے مفاہمتی پالیسیاں ایک بار پھر تیز کر دی ہیں۔ مالی سال دو ہزار گیارہ کا بجٹ پیش ہونے میں تقریباً ڈیڑھ مہینے کا وقت رہ گیا ہے۔ اسے منظور کرانے کے لئے بھی حکمراں جماعت کو دوسری پارٹیوں سے تعاون درکارہوگا لہذا ایک جانب توپی پی روٹھے ہوؤں کو منانے کی کوشش کر رہی ہے تو دوسری جانب مبصرین کے مطابق اپنا آخری پتہ بھی شو کرنے کی تیاریاں ہو رہی ہیں ۔
مبصرین کہتے ہیں کہ وفاقی کابینہ سے متحدہ قومی موومنٹ اور جے یو آئی (ف) کی علیحدگی کے بعد اس مرتبہ حکمراں جماعت کو آئندہ مالی سال کا بجٹ پاس کروانے میں مشکلات کا سامنا ہوسکتا ہے تاہم اس حقیقت سے کسی کو انکار نہیں کہ صدر آصف علی زرداری نے قومی اسمبلی میں اکثریت نہ ہونے کے باوجود جس طرح اپنی حکمرانی برقرار رکھی وہ اپنی مثال آپ ہے ۔ اب پی پی اور خصوصاً صدر کی کوشش ہوگی کہ ایک جانب متحدہ قومی موومنٹ کو واپس لانے کی تدابیر کریں گے تو دوسری جانب مسلم لیگ (ق) کو جے یو آئی (ف) کا متبادل بنانے کے ہرممکن اقدامات کریں جائیں کیوں کہ ق سے بہتر متبادل ہو نہیں سکتا ۔
پیر کو اسلام آباد میں صدر آصف علی زرداری کی زیر صدارت ہونے والے کور کمیٹی کے اجلاس میں اراکین کے علاوہ وزیر اعظم سید یوسف رضا گیلانی بھی شریک ہوئے ۔ اجلاس میں ایم کیو ایم کی وفاقی کابینہ میں واپسی اور مسلم لیگ (ق) کو کابینہ میں شامل کرنے سے متعلق تفصیلی غورو خوص کیا گیا اور اراکین نے کابینہ میں توسیع کے فیصلے کا اختیار صدر آصف علی زرداری اور وزیر اعظم سید یوسف رضا گیلانی کو دے دیا۔
آج کے اجلاس میں سابق وفاقی وزیر قانون ڈاکٹر بابر اعوان کی جگہ مولابخش چانڈیو سے بھی حلف نہیں لیا گیا اور اس کی وجہ بھی یہی ہے کہ اگر ایم کیو ایم اور مسلم لیگ ق وفاقی کابینہ میں شامل ہوتی ہے تو ان کے وزراء کے ساتھ ہی نئے وزیر قانون بھی حلف اٹھالیں گے۔
سیاسی پنڈت متحدہ قومی موومنٹ کی کابینہ میں واپسی کے واضح اشارہ دے رہے ہیں ۔ ان کا موقف تھا کہ وفاق سے ایم کیو ایم کی علیحدگی کی وجہ سابق وزیر داخلہ سندھ ذوالفقار مرزا کا ایک بیان بنا تھا لیکن اب ذوالفقار مرزا کا فوری طور پر سندھ میں کوئی کردار نظر نہیں آرہا اور یہی وجہ ایم کیو ایم کی واپسی کے امکانات روشن کر رہی ہے۔
دوسری جانب ملک کی تقریباً تمام بڑی سیاسی جماعتوں کو حکومت میں شامل کرنے کے بعد اب حکمران جماعت کی نظریں مسلم لیگ ق پر لگی ہوئی ہیں تاہم ق لیگ کی وفاقی کابینہ میں شمولیت سے متعلق ابہام برقرار ہے۔ اگر چہ وزیر اعظم سید یوسف رضا گیلانی کے ساتھ مسلم لیگ ق کی قیادت کے بظاہر تعلقات خوشگوار نظر آ رہے ہیں تاہم مبصرین کا کہنا ہے کہ موجودہ حکومت کا دورانیہ محض ڈیڑھ برس رہ گیا ہے اور عوام کو مختلف اوقات میں کڑوے گھونٹ پلانے پر وہ کافی غیر مقبول بھی ہو چکی ہے لہذا ایسی صورتحال میں مسلم لیگ ق کابینہ میں شامل ہو کر سیاسی خودکشی نہیں کر سکتی۔
مبصرین آنے والے چند روز کو پاکستانی سیاست کے لئے انتہائی اہم قرار دے رہے ہیں اور بڑی تبدیلیوں کا امکان ظاہر کیا جا رہا ہے تاہم یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ اگر حکمراں جماعت پیپلزپارٹی وفاقی کابینہ میں متحدہ قومی موومنٹ یا ق لیگ میں سے کسی کو بھی شامل نہ کر سکی تو جون میں پیش کیا جانے والا بجٹ دو ہزار گیارہ پاس کروانا اس کے لئے بڑا درد سر بن سکتا ہے۔