پاکستان میں حزب مخالف کی جماعت تحریک انصاف تقریباً سات ماہ بعد پارلیمنٹ کے اجلاس میں شریک ہوئی۔
یمن کی جنگ کے اثرات اور اس میں پاکستان کے ممکنہ کردار پر بحث کے لیے بلائے گئے اجلاس میں شرکت کے لیے عمران خان کی قیادت میں اُن کی جماعت کے اراکین پارلیمنٹ ہاؤس پہنچے تو وہ میڈیا کی توجہ کا مرکز رہے۔
حتیٰ کے اجلاس شروع ہوا تو اُس وقت بھی بہت سے اراکین پارلیمان میں اُن کی واپسی کے بارے میں بات کرنے کی کوشش کی۔
بعض سیاسی جماعتوں بشمول متحدہ قومی موومنٹ اور عوامی نیشنل پارٹی کی طرف سے تحریک انصاف کے فیصلے پر تحفظات کا اظہار کیا گیا۔
فاروق ستار کا کہنا تھا کہ عمران خان کی جماعت کے اراکین استعفیٰ دے چکے تھے اس لیے اُن کی اس طرح پارلیمان میں واپسی ’غیر آئینی‘ اقدام ہے۔
عمران خان نے تحریک انصاف کے اراکین قومی اسمبلی کی ایوان میں واپسی پر تنقید کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ اُن کی جماعت 2013ء کے انتخابات میں دھاندلی کے الزامات کے اپنے موقف سے پیچھے نہیں ہٹی ہے، بلکہ اُن کے بقول دھاندلی سے متعلق الزامات کی تحقیقات کے لیے جوڈیشل کمیشن کے قیام کے لیے ’آرڈیننس‘ کے اجرا کے بعد تحریک انصاف نے پارلیمان میں واپسی کا فیصلہ کیا۔
’’ بالکل اپنے پرانے موقف پر کھڑا ہوں کہ الیکشن میں دھاندلی ہوئی تھی لیکن فرق یہ ہے کہ عدالتی کمشن بن گیا ہے اور ہمیں موقع مل گیا ہے کہ ہم جو سمجھتے تھے کہ دھاندلی ہوئی ہے اور ہمارے پاس ثبوت موجود ہیں ہو ہم عدالتی کمشن کے پاس لے کر جائیں گے یہ (موقع) ہمارے پاس پہلے موجود نہیں تھا۔‘‘
کئی دیگر سیاسی جماعتوں کی طرف سے تحریک انصاف کی پارلیمان میں واپسی کو جمہوریت اور پارلیمنٹ کی کامیابی قرار دیا۔
قومی وطن پارٹی کے سربراہ آفتاب شیر پاؤ نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ عدالتی کمیشن کی تشکیل کے لیے عمران خان پارلیمان کے اندر بھی آواز اٹھا سکتے تھے۔
’’آخر بالادستی کیس کی ہوئی ہے پارلیمان کی ہوئی ہے اور ہم یہ سمجھتے ہیں کہ یہ پارلیمان کی جیت ہے اور اس کو اس تناظر میں دیکھنا چاہیے دیر آید درست آید، ہم تو سمجھتے تھے کہ اس سے کچھ حاصل نہیں ہوا، جوڈیشیل کمشن قیام کے لیے وہ پارلیمان کے اندر بھی آواز اٹھا سکتے تھے لیکن ان کو اس حد تک نہیں جانا چاہیے تھا کہ پارلیمان جعلی ہے۔‘‘
پاکستان کی حکمران جماعت کے سینیٹر اقبال ظفر جھگڑا کتہے ہیں کہ اب تحریک انصاف کو عوام کے مسائل پر ایوان میں بات کرنی چاہیئے۔
’’ان کو اس لیے منتخب کیا گیا تھا کہ وہ اپنے عوام کی نمائندگی کریں۔‘‘
تحریک انصاف نے گزشتہ سال اگست میں 2013ء کے عام انتخابات میں مبینہ دھاندلی الزامات لگاتے ہوئے حکومت مخالف احتجاج شروع کیا اور پارلیمان کے سامنے 100 دن سے زائد دھرنا بھی دیا۔
اس دوران اس جماعت کے اراکین نے قومی اسمبلی کے علاوہ پنجاب اور سندھ کی اسمبلیوں سے بھی استعفے دے تھے، تاہم قومی اسمبلی سے اُن کے استعفوں کو منظور نہیں کیا گیا تھا۔
حکومت اور تحریک انصاف کے درمیان انتخابات میں دھاندلی کی تحقیقات کے لیے عدالتی کمیشن بنائے جانے پر اتفاق کے بعد صدر پاکستان کی طرف سے اس کی تشکیل کے لیے آرڈیننس جاری کر دیا گیا ہے اور اسی اقدام کے بعد تحریک انصاف کی اپنی جماعت میں اعلیٰ سطحی مشاورت میں پارلیمنٹ واپسی کا فیصلہ کیا۔