وزیراعظم نواز شریف گزشتہ ماہ دل کے آپریشن کے بعد تاحال لندن میں ہی مقیم ہیں اور بتایا جاتا ہے کہ وہ ڈاکٹروں کے مشورے سے جلد پاکستان واپس آجائیں گے۔ لیکن وزیراعظم جس سیاسی کشیدگی کے دوران علاج کے لیے بیرون ملک گئے تھے اس میں ہر گزرتے دن کے ساتھ اضافہ ہو رہا ہے اور حزب مخالف حکومت کے خلاف سڑکوں پر آنے کا اعلان بھی کر چکی ہے۔
وزیراعظم کے سب سے بڑے ناقد عمران خان کی جماعت پاکستان تحریک انصاف نے نواز شریف کو منصب کے لیے نااہل قرار دینے کے لیے الیکشن کمیشن میں درخواست دائر کر دی ہے جب کہ حزب مخالف کی سب سے بڑی جماعت پاکستان پیپلز پارٹی بھی آئندہ ہفتے سے ایسا ہی کرنے جا رہی ہے۔
ان جماعتوں کا کہنا ہے کہ وزیراعظم نے مبینہ طور پر اپنے اثاثہ جات چھپائے اور ٹیکس گوشواروں میں ان کے بقول حقیقت بیان نہ کرتے ہوئے وہ دروغ گوئی کے مرتکب ہوئے۔
لیکن حکومتی عہدیدارن ان الزامات کو مسترد کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ حزب مخالف پاناما لیکس خصوصاً بدعنوانی کے معاملات کی تحقیقات کو سیاست کی نذر کرتے ہوئے صرف وزیراعظم کی ذات کو ہی نشانہ بنانے پر مُصر ہے۔
ایسے میں پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹوزرداری کا یہ بیان سامنے آیا ہے کہ اگر حکومت نے پاناما لیکس کے معاملے کی تحقیقات میں سنجیدگی نہ دکھائی تو ان کی جماعت احتجاج کے لیے سڑکوں کا رخ کرے گی جب کہ عمران خان بھی عیدالفطر کے بعد اسی طرح کی احتجاجی مہم شروع کرنے کا عندیہ دے چکے ہیں۔
سیاسی و جمہوری امور کے تجزیہ کار احمد بلال محبوب ان ساری سرگرمیوں کو انتخابی مہم کے طور پر دیکھتے ہیں لیکن ان کے بقول اگر پاناما لیکس کی تحقیقات کے معاملے پر حکومت اور حزب مخالف کسی بات پر متفق نہیں ہوتے تو ملک میں سیاسی کشیدگی مزید بڑھے گی جس سے سیاسی عمل کو دھچکا لگ سکتا ہے۔
اتوار کو وائس آف امریکہ سے گفتگو میں ان کا کہنا تھا کہ فریقین کو چاہیے کہ وہ متعلقہ فورمز پر ان معاملات کو لے کر جائیں تو یہی مناسب ہوگا۔
"انھوں نے الیکشن کمیشن میں درخواست دائر کی ہے یہ بہت مناسب ہے، یہ وہ فورم ہے جہاں پر یہ بات کی جانی چاہیے لیکن یہ جو سڑکوں پر آکر دھرنے دینے والا معاملہ ہے میں نہیں سمجھتا کہ یہ اس معاملے کو کسی بھی طریقے سے حل کرے گا اس سے سیاسی فضا خراب ہوگی اور پورا سیاسی عمل ڈی ریل ہو سکتا ہے۔"
ان کا کہنا تھا کہ وزیراعظم نواز شریف اور ان کے سب سے بڑے ناقد عمران خان، دونوں ہی پارلیمان کی بالادستی اور تکریم کی بات تو کرتے ہیں لیکن یہ دونوں حضرات خود پارلیمنٹ کے اجلاس میں مناسب حد تک شرکت نہیں کرتے۔
پاناما لیکس میں وزیراعظم کے بچوں کے نام آف شور کمپنیوں کے انکشاف کے بعد سے شروع ہونے والا معاملہ اور اس کی تحقیقات کے لیے کمیشن کا قیام جوں کا توں ہے اور کمیشن کے ضابطہ کار بنانے کے لیے حزب مخالف اور حکومت دونوں متفق نہیں ہو سکے ہیں۔