اسلام آباد —
چیف جسٹس افتخار محمد چودھری نے کہا ہے کہ جیلوں کی صورتحال بہتر بنانا اور قیدیوں کی اصلاح و بہبود کے اقدامات کو ہمیشہ ریاستی سطح پر نظر انداز کیا گیا ہے جو کہ ان کے مطابق اب سلامتی کے لیے ایک خطرے کی شکل اختیار کر چکے ہیں۔
ہفتہ کو اسلام آباد میں ’’قیدیوں کی زبوں حالی اور آگاہی کے فقدان" کے موضوع پر منعقدہ ایک سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ جیلوں میں گنجائش سے کہیں زیادہ قیدیوں کی موجودگی اور عملے کی کمی وہاں تشدد کے رجحانات میں اضافے کی بڑی وجوہات ہیں۔
چیف جسٹس نے اس بارے میں حکومت پر زور ڈالتے ہوئے کہا کہ ’’موجودہ جیلوں میں گنجائش بڑھانے کے ساتھ ساتھ نئی جیلوں کی تعمیر کے لیے اقدامات ضرور کرنا ہوں گے اور تحقیقاتی اداروں کو ہدایات دے کر اس بات کو یقینی بنایا جائے کہ قیدیوں کے مقدمات کو جلد نمٹایا جائے۔‘‘
حالیہ سالوں میں ملک کی مختلف جیلوں میں فسادات کے واقعات پیش آئے ہیں جبکہ گزشتہ ایک سال میں شدت پسند خیبرپختونخواہ میں دو جیلوں پر حملہ کرکے اپنے بیسیوں ساتھی چھڑوا لے گئے تھے۔
اس کے علاوہ 2008ء کے ممبئی حملے کے فوراً بعد امریکی صحافی ڈینیل پرل کے قتل میں ملوث عمر سعید شیخ نے حیدر آباد جیل سے اس وقت کے بھارتی وزیر خارجہ کو فون کر کے پاکستانی عہدیداروں کے مطابق کوشش کی کہ دونوں ممالک میں جنگ چھڑ جائے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ قیدیوں سے متعلق ملکی قوانین کو فرسودہ قرار دیتے ہوئے ان میں جلد ترمیم کی ضرورت پر زور دیا۔
’’وہ جیل میں اپنی غلط کاریوں کی وجہ سے ہیں لیکن اس کا ہر گز مطلب نہیں کہ انہیں ان کے بنیادی حق سے محروم رکھا جائے۔ افسوس کی بات ہے کہ کوئی ایسا منصوبہ نہیں جس کے تحت قیدیوں کی تربیت اور فلاح و بہبود کے ذریعے انہیں معاشرے کا فعال رکن بنایا جائے۔‘‘
حکومت کے اعداد و شمار کے مطابق ملک کی مختلف جیلوں میں موجود قیدیوں میں سے 13 ہزار سے زائد لوگ وہ ہیں جنھیں گزشتہ ایک دہائی میں موت کی سزاء سنائی گئی ہیں جبکہ ان میں سے صرف 500 کو پھانسی دی گئی۔
وفاقی وزیر داخلہ چودھری نثار علی خان نے حال ہی میں پارلیمان کو بتایا کہ حکومت کسی ایسی تجویز پر غور نہیں کر رہی کہ سزائے موت کو عمر قید میں تبدیل کر دیا جائے۔
ہفتہ کو اسلام آباد میں ’’قیدیوں کی زبوں حالی اور آگاہی کے فقدان" کے موضوع پر منعقدہ ایک سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ جیلوں میں گنجائش سے کہیں زیادہ قیدیوں کی موجودگی اور عملے کی کمی وہاں تشدد کے رجحانات میں اضافے کی بڑی وجوہات ہیں۔
چیف جسٹس نے اس بارے میں حکومت پر زور ڈالتے ہوئے کہا کہ ’’موجودہ جیلوں میں گنجائش بڑھانے کے ساتھ ساتھ نئی جیلوں کی تعمیر کے لیے اقدامات ضرور کرنا ہوں گے اور تحقیقاتی اداروں کو ہدایات دے کر اس بات کو یقینی بنایا جائے کہ قیدیوں کے مقدمات کو جلد نمٹایا جائے۔‘‘
حالیہ سالوں میں ملک کی مختلف جیلوں میں فسادات کے واقعات پیش آئے ہیں جبکہ گزشتہ ایک سال میں شدت پسند خیبرپختونخواہ میں دو جیلوں پر حملہ کرکے اپنے بیسیوں ساتھی چھڑوا لے گئے تھے۔
اس کے علاوہ 2008ء کے ممبئی حملے کے فوراً بعد امریکی صحافی ڈینیل پرل کے قتل میں ملوث عمر سعید شیخ نے حیدر آباد جیل سے اس وقت کے بھارتی وزیر خارجہ کو فون کر کے پاکستانی عہدیداروں کے مطابق کوشش کی کہ دونوں ممالک میں جنگ چھڑ جائے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ قیدیوں سے متعلق ملکی قوانین کو فرسودہ قرار دیتے ہوئے ان میں جلد ترمیم کی ضرورت پر زور دیا۔
’’وہ جیل میں اپنی غلط کاریوں کی وجہ سے ہیں لیکن اس کا ہر گز مطلب نہیں کہ انہیں ان کے بنیادی حق سے محروم رکھا جائے۔ افسوس کی بات ہے کہ کوئی ایسا منصوبہ نہیں جس کے تحت قیدیوں کی تربیت اور فلاح و بہبود کے ذریعے انہیں معاشرے کا فعال رکن بنایا جائے۔‘‘
حکومت کے اعداد و شمار کے مطابق ملک کی مختلف جیلوں میں موجود قیدیوں میں سے 13 ہزار سے زائد لوگ وہ ہیں جنھیں گزشتہ ایک دہائی میں موت کی سزاء سنائی گئی ہیں جبکہ ان میں سے صرف 500 کو پھانسی دی گئی۔
وفاقی وزیر داخلہ چودھری نثار علی خان نے حال ہی میں پارلیمان کو بتایا کہ حکومت کسی ایسی تجویز پر غور نہیں کر رہی کہ سزائے موت کو عمر قید میں تبدیل کر دیا جائے۔