پاکستان میں حکومتی اتحاد اور اپوزیشن کی جماعت تحریک انصاف کے درمیان سیاسی تعطل کے خاتمے کے لیے انتخابات کی تاریخ کے تعین پر ہونے والے مذاکرات کا تیسرا دور ختم ہو گیا ہے۔
حکومتی وفد کا موقف ہے کہ بات چیت میں پیش رفت ہوئی ہے اور فریقین کم از کم ایک دن انتخابات کے انعقاد پر متفق ہو گئے ہیں جبکہ تحریک انصاف کے وفد کی جانب سے بتایا گیا ہے کہ مذاکرات میں پیش رفت نہیں ہو سکی اور پارٹی انتخابات کے لیے دوبارہ سپریم کورٹ کا دروازہ کھٹکھٹائے گی۔
اسلام آباد میں مذاکرات کے بعد حکومتی اتحاد کی مذاکراتی ٹیم میں شامل وزیرخزانہ إسحاق ڈار نے میڈیا سسے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ دونوں فریقوں میں اس بات پر اتفاق ہے کہ مرکز اور صوبوں کے انتخابات ایک ہی دن ہونے چاہیئں۔
انہوں نے کہا کہ انتخابات کب ہوں گے، اس بارے میں کسی حتمی تاریخ پر اتفاق نہیں ہوا، لیکن اطراف سے لچک دیکھی گئی ہے جو ان کے بقول ایک بڑی پیش رفت ہے۔
اس موقع پر پیپلز پارٹی کے راہنما اور سابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی نے کہا کہ دونوں پارٹیوں میں اس بات پر بھی اتفاق ہوا ہے کہ انتخابات کے جو بھی نتائج ہوئے، سب اس کو تسلیم کریں گے تاکہ غیر یقینی صورتحال سے نکلا جا سکے۔
تحریک انصاف کا موقف مختلف
تحریک انصاف کے راہنما شاہ محمود قریشی نے اس موقع پر میڈیا کو بتایا کہ مذاکرات میں پیش رفت نہیں ہو سکی ہے۔ تحریک انصاف چاہے گی کہ پنجاب میں 14 مئی کو الیکشن کرا دیے جائیں۔ خیبرپختونخوا میں انتخابات کا معاملہ بھی عدالت میں ہے۔ اس فیصلے کی روشنی میں جلد از جلد انتخابات ہو جانے چاہیئں۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان کی سپریم کورٹ نے 19 تاریخ کو یہ تجویز دی تھی کہ سیاسی جماعتیں بیٹھ کر گفت و شنید سے راستہ نکال سکتی ہیں تو اسے اعتراض نہ ہو گا۔
پاکستان تحریک انصاف نے ان کے بقول اس مثبت سوچ کے پیش نظر اتحادی حکومت کے ساتھ مذاکرات پر آمادگی کا اظہار کیا اور عمران خان نے تین رکنی کمیٹی (شاہ محمود، فواد چوہدری، بیرسٹر علی ظفر) تشکیل دی۔پی ڈی ایم کے وفد کے ساتھ تین نشستیں ہوئی ہیں۔
شاہ محمود قریشی نے کہا کہ ’’ میں سمجھتا ہوں کہ ہم نے بحیثیت پارٹی کوشش کی کہ کسی اتفاق کی جانب آگے بڑھ سکیں۔ جن چیزوں پر اتفاق ہوا ان میں پہلی بات تو یہ کہ سیاسی جماعتیں کسی ایسی بات پر متفق ہوں جو عوام کے مفاد اور آئین کے مطابق ہو۔
دوسری چیز جس پر اتفاق ہوا وہ یہ مذاکراتی عمل کو تاخیری حربے کے طور پر استعمال نہیں ہونا چاہیے۔ اور تیسری بات یہ کہ سپریم کورٹ کا چار اپریل کو انتخابات کا فیصلہ آئین کی روح کے مطابق ہے اس کو اس سپرٹ کے ساتھ لے کر آگے بڑھا جائے۔ ہم نے اس بات پر بھی اتفاق کیا تو اس پر عملدرآمد کا میکنزم بھی دینا ہو گا۔‘‘
تاہم انہوں نے کہا کہ انتخابات کی تاریخ پر اتفاق نہیں ہو سکا ہے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ تحریک انصاف آئین کے مطابق پنجاب اور خیبرپختونخوا میں 90 دن کے انتخابات کی آئینی بندش کے پیش نظر 14 مئی کے انتخابات کے مطالبے کے ساتھ سامنے آئی اور پی ڈی ایم چاہتی تھی کہ الیکشن بیک وقت ایک ہی روز کیے جائیں بشمول پنجاب خیرپختونخوا کے اور قومی اسمبلی بھی اس وقت تحلیل ہو جب اس کی آئینی مدت پوری ہو۔
ہماری تجویز تھی کہ قومی اسمبلی اور سندھ بلوچستان کی اسمبلیاں 14 مئی تک تحلیل ہوں اور 60 دن کے اندر انتخابات ہو جائیں۔ ہم ایک تاریخ کے قریب آئے مگر اتفاق نہ ہو سکا۔ ‘‘
شاہ محمود قریشی نے یہ بھی کہا حکومت کی طرف سے ایسے میں ان کے ورکروں اور راہنماؤں کے گھروں پر چھاپے مارے گئے جب وہ مذاکرات کر رہے تھے ۔ ان کا کہنا تھا کہ نواز لیگ کے کچھ راہنماؤں کے بیانات بھی نامناسب تھے۔
’’ دونوں فریق جب مذاکرات کے دوسرے راؤنڈ کے لیے پہنچے تو ہمارے ساتھیوں کی پکڑ دھکڑ شروع ہو گئی۔ پارٹی کے صدر چوہدری پرویز الٰہی کے گھر دھاوا بول دیا گیا۔ علی امین گنڈا پور کی ایک کے بعد دوسرے کیس میں گرفتاری والی آنکھ مچولی چل رہی ہے۔ ان چیزوں نے اور جاوید لطیف کی پریس کانفرنس نے صورت حال کو پیچیدہ کیا ہے۔ احسن اقبال کی گفتگو بھی آپ کے سامنے ہے۔‘‘
انہوں نے مزید کہا کہ ’’ ہماری تجویر مثبت تھی، قابل عمل تھی اور آئین کے دائرے کے اندر تھی، لیکن ہمارے حکومتی ساتھیوں کو اسے تسلیم کرنے میں دقت محسوس ہو رہی ہے۔ اس پر ہم نے فیصلہ کیا ہے کہ ہم سپریم کورٹ جائیں گے اور اپنا موقف تحریری طور پر پیش کر دیں گے اور بتائیں گے کہ ہم نے کہاں کہاں لچک دکھائی۔‘‘