پاکستان میں احمدی کمیونٹی کو ہراساں کرنے اور ان کے قتل کے واقعات میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان(ایچ آر سی پی) کی حالیہ رپورٹ میں بھی احمدی کمیونٹی سمیت دیگر اقلیتوں کے خلاف بڑھتی ہوئی کارروائیوں پر تشویش کا اظہار کیا گیا ہے۔
چند روز قبل کراچی کے ایک احمدی وکیل کو اپنے نام کے ساتھ 'سید' لکھنے کی پاداش میں مقدمہ درج کر کے گرفتار کرنے کا واقعہ ہو یا پنجاب کے مختلف شہروں میں احمدی عبادت گاہوں میں توڑ پھوڑ کے واقعات سے احمدی کمیونٹی مسلسل نشانہ بن رہی ہے۔
اس سے قبل پشاور سمیت ملک کے مختلف مقامات پر احمدی کمیونٹی سے تعلق رکھنے والے افراد کی 'ٹارگٹ کلنگ' کے واقعات بھی رُونما ہو چکے ہیں۔
پاکستان میں توہینِ مذہب کو انتہائی حساس معاملہ سمجھا جاتا ہے۔ ملک میں رائج قوانین کے مطابق اس جرم کے مرتکب افراد کو موت کی سزا دی جا سکتی ہے۔ البتہ ابھی تک کسی بھی شخص یا خاتون کو اس جرم کے لیے عملی طور پر پھانسی کی سزا نہیں دی گئی۔ اِس جرم کے مرتکب افراد کو عمر قید یا دیگر سزائیں ضرور دی گئی ہیں۔
کراچی میں احمدی وکیل کے خلاف درج مقدمے کی تفصیلات بتاتے ہوئے جماعتِ احمدیہ کے ترجمان عامر محمود کہتے ہیں کہ مذکورہ وکیل کے خلاف چند ماہ کے دوران دو مقدمات درج کیے گئے جس پر اُنہیں گرفتار بھی کیا گیا۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے عامر محمود کا کہنا تھا کہ احمدی وکیل کے خلاف مقدمہ ظاہر کرتا ہے کہ معاشرے میں احمدی برادری کے خلاف مضحکہ خیز قوانین موجود ہیں کیوں کہ اُن پر صرف اِس وجہ سے مقدمہ درج کر لیا گیا کہ اُن کے نام میں سید آتا ہے۔
اُن کا کہنا تھا کہ مذکورہ وکیل سید خاندان کا حصہ ہیں اور اسی وجہ سے وہ اپنے نام کے ساتھ سید لکھتے ہیں۔
ان کے بقول اس مقدمے کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ جس روز مقدمہ درج کیا گیا، اُس روز عدالت میں اُن پر تشدد بھی ہوا جو اِس بات کا اشارہ ہے کہ جو وکیل احمدی برادری کا ساتھ دیتے ہیں اُن کو ایسے مقدمات کی پیروی سے روکا جائے۔
انسانی حقوق کی تنظیموں کے تحفظات
پاکستان میں اقلیتوں کے خلاف بڑھتے ہوئے واقعات پر پاکستان میں انسانی حقوق کی غیر سرکاری تنظیمیں بھی تشویش کا اظہار کر رہی ہیں۔
ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کی حال ہی میں جاری ہونے والی سالانہ رپورٹ برائے 2022 میں کہا گیا ہے کہ مذہب یا عقیدے کی آزادی کے خلاف بڑھتے ہوئے خطرات لمحہ فکریہ ہیں۔
رپورٹ کے مطابق اگرچہ توہینِ مذہب کے الزامات سے متعلق پولیس رپورٹس میں کمی آئی ہے تاہم ہجوم کے ہاتھوں ہلاکتوں میں بظاہر اضافہ ہوا ہے۔
رپورٹ کے مطابق احمدی برادری خاص طور پر حملوں کی زد میں رہی اور خصوصاً پنجاب میں اُن کی کئی عبادت گاہوں اور 90سے زائد قبروں کی بے حرمتی کی گئی۔
ایچ آر سی پی نے اپنی رپورٹ میں مطالبہ کیا ہے کہ اگر ریاست کو سیاست، قانون اور نظم و نسق کے حوالے سے ایک عوام دوست حکمتِ عملی کی جانب بڑھنا ہے تو اسے ان مسائل کے حل کے لیے فوری اقدامات کرنا ہوں گے۔
مذکورہ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ 2022 میں ملک بھر میں توہینِ مذہب کے 35 مقدمات درج کیے گئے جن میں 171 افراد کو ملزم ٹھہرایا گیا ہے۔
احمدیوں کو ہراساں کرنے کے واقعات میں اضافہ کیوں؟
جماعتِ احمدیہ کے ترجمان اور مرکزی رہنما عامر محمود سمجھتے ہیں کہ پاکستان میں احمدیوں کے خلاف نفرت بڑھنے کی بڑی وجہ احمدی کمیونٹی کے خلاف طویل عرصے سے کیا جانے والے پروپیگنڈا ہے۔
اُن کا کہنا تھا کہ احمدی کمیونٹی کے خلاف نفرت اتنی بڑھ چکی ہے کہ اُنہیں اپنا مؤقف پیش کرنے میں بھی مشکلات کا سامنا ہے۔
پاکستان میں دیگر مذاہب کے لیے کام کرنے والی ایک غیر سرکاری تنظیم "سینٹر فار سوشل جسٹس" کے ڈائریکٹر پیٹر جیکب کہتے ہیں کہ پاکستان میں اقلیتوں کے خلاف مظالم کی وجہ تاریخی اور معاشرتی محرکات ہیں جب کہ حکومتوں اور اداروں کی پالیسیوں کا بھی اس میں کردار ہے۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ معاشرے میں کچھ ایسے ادارے موجود ہیں جو عدم برداشت کا پرچار کرتے ہیں۔
ایچ آر سی پی کی ڈائریکٹر فرح ضیا سمجھتی ہیں کہ یوں کہنا کے واقعات بڑھ رہے ہیں سے گمان ہوتا ہے کہ پہلے شاید واقعات کم ہوتے تھے، حالاں کہ ایسا نہیں ہے۔ "یہ واقعات کبھی کم ہوئے ہی نہیں۔"
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ ریاست نے اپنی پالیسی کے تحت ملک میں مدرسوں کا ایک جال بچھایا جب کہ شہریوں کو برابر کے حقوق دینے کے مسئلے پر پوری طرح توجہ نہیں دی گئی۔
فرح ضیا کہتی ہیں کہ اقلیتوں کے ساتھ قوانین اور آئینِ پاکستان میں امتیازی سلوک رکھا گیا ہے۔ آئین کے مطابق کوئی بھی غیر مسلم شخص ریاست کا سربراہ نہیں بن سکتا۔
کراچی واقعے سے متعلق ایچ آر سی پی کی ڈائریکٹر کا کہنا تھا کہ موجودہ دور میں زیادہ ذرائع ابلاغ ہونے کی وجہ سے یوں لگتا ہے کہ واقعات بڑھ رہے ہیں اور سندھ جیسے علاقے سے ایسے کسی واقعہ کا سامنے آنا تشویش کی بات ہے جہاں مذہبی رواداری کی مثالیں دی جاتی ہیں۔
اُن کا کہنا تھا کہ اِس واقعے میں کوئی بھی وکیل حتیٰ کے احمدی وکیل بھی کیس کی پیروی کے لیے تیار نہیں ہیں کیوں کہ وہ وہ بھی ڈرتے ہیں۔
واقعات کو کیسے روکا جائے؟
پیٹر جیکب کی رائے میں سب سے پہلے تو حکومت کی جانب سے ایسے واقعات کی صورت میں غیر مشروط مذمت ہونی چاہیے۔
اُن کے بقول انسانی حقوق اور شہری حقوق کی خلاف ورزی کسی بھی بنیاد پر کرنا غیرقانونی ہے۔ تشدد کو روکنا چاہیے اور قوانین کے علاوہ اِس کی مذمت کرنی چاہیے۔
عامر محمود کی رائے میں ایسے واقعات کو روکنے کا واحد طریقہ یہی ہے کہ ریاست اپنی ذمے داریاں ادا کرے اور احمدی برادری کے خلاف جو یک طرفہ، بے بنیاد اور جھوٹا پروپیگنڈا کیا جا رہا ہے اُس پر قانون کے مطابق کارروائی کی جائے۔
اُن کا مزید کہنا تھا کہ چند سال پہلے جو نیشنل ایکشن پلان بنا تھا اُس میں بھی واضح طور پر کہا گیا تھا کہ نفرت انگیز تحریر اور تقریر کی اجازت نہیں دی جائے گی۔
فرح ضیا کہتی ہیں کہ گزشتہ سال پنجاب اسمبلی میں احمدیوں کے بارے میں ایسے قوانین متعارف کرائے گئے جن میں اُنہیں نکاح سے قبل حلف نامہ جمع کرانے کو کہا گیا تھا۔ ریاستی معاملات میں مذہب کو بہت زیادہ اہمیت دی گئی ہے جس کے نتائج سامنے آ رہے ہیں۔
حکومت کا مؤقف
وزیراعظم کے مشیر برائے مذہبی امور اور چئیرمین پاکستان علما کونسل مولانا طاہر اشرفی سمجھتے ہیں کہ معاشرے میں نفرت اور عدم برداشت صرف اقلیتوں کے خلاف نہیں بلکہ مجموعی طور پر معاشرے میں عدم برداشت بڑھی ہے۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ صرف اقلیتوں کے بارے میں ایسا کہنا کہ صرف وہی عدم برداشت کا شکار ہیں تو یہ درست نہیں ہے۔
اُن کا دعوی تھا کہ احمدی کمیونٹی کے ساتھ واقعات زیادہ نہیں ہو رہے۔ اب چوں کہ سوشل میڈیا کا دور ہے اور پروپیگنڈا بھی کیا جا رہا ہے۔" لہذا یہ کہنا کہ واقعات میں اضافہ ہوا ہے درست نہیں البتہ سوشل میڈیا کے ذریعے پروپیگنڈے میں اضافہ ضرور ہوا ہے۔"
اُن کا کہنا تھا کہ پاکستان میں احمدیوں یا قادیانیوں کو غیر مسلم قرار دیا گیا ہے، لہذٰا وہ اسلامی شعائر یا عبارتوں کا اپنی عبادت گاہوں میں استعمال نہیں کر سکتے۔
اُن کے بقول ریاست کے قانون کو کسی کو ہاتھ میں نہیں لینا چاہیے، چاہے وہ مسلمان ہو یا غیر مسلم۔