کوئٹہ —
پاکستان کے جنوب مغربی شہر کوئٹہ میں ہفتہ کو ایک بم دھماکے میں ایک کم سِن بچی ہلاک اور سکیورٹی اہلکاروں سمیت کم ازکم 18 افراد زخمی ہو گئے۔
نیو سریاب کے علاقے میں دیسی ساختہ بم ایک رکشے میں نصب کر کے اسے ایک تھانے کے قریب کھڑا کیا گیا تھا جس میں حکام کے بقول ریموٹ کنٹرول سے اُس وقت دھماکا کیا گیا جب وہاں سے فرنٹئیر کور کی گاڑی گزر رہی تھی۔
دھماکے سے ایک سات سالہ بچی موقع پر ہی ہلاک جب کہ دو ایف سی اہلکاروں سمیت ڈیڑھ درجن افراد زخمی ہوگئے۔
اس واقعے کی تاحال کسی فرد یا گروہ نے ذمہ داری قبول نہیں کی لیکن ماضی میں ایسی پرتشدد کارروائیوں کی ذمہ داری حکام علیحدگی پسند عسکری تنظیموں پر عائد کرتے رہے ہیں۔
یہ واقعہ ایک ایسے وقت پیش آیا جب ایک روز قبل ہی صوبائی حکومت، فوج اور دیگر قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اعلیٰ عہدیداروں نے امن و امان کے قیام کے لیے بھرپور اور مربوط کوششیں جاری رکھنے کا عزم ظاہر کیا۔
کوئٹہ میں ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے سدرن کمانڈ کے سربراہ لیفٹیننٹ جنرل نصیر جنجوعہ نے کہا کہ فوج دیگر اداروں کے ساتھ مل کر سلامتی کی صورت حال کو بہتر بنانے کی کوششیں کر رہی ہے، جس کی بدولت حالات میں ماضی کی نسبت بہتری آئی اور اُن کے بقول بہت جلد علاقے میں امن بحال ہو جائے گا۔ ان کا کہنا تھا کہ صوبائی حکومت اور اُن کے درمیان مکمل ہم آہنگی ہے۔
’’جو پاکستانی فوج ہے ہمارے ساتھ ایف سی ہے، پولیس ہے ہم سب اکٹھے ہوکر ایک ہی سمت میں دیکھ رہے ہیں ایک ہی چیز کی حمایت کرنا چاہتے ہیں اور سیاسی عمل کے ذریعے آگے بڑھنا چاہتے ہیں۔ دن رات اسی کوشش میں لگے ہوئے ہیں کہ بلوچستان کا امن بحال کیا جائے۔‘‘
لیفٹیننٹ جنرل نصیر جنجوعہ نے صوبے کے عوام سے اپیل کی کہ وہ کے حالات کو پرامن بنانے کے لیے سیکورٹی اداروں سے بھرپور تعاون کریں ۔
وزیراعلیٰ عبدالمالک بلوچ بھی اس تقریب میں موجود تھے جنہوں نے اپنے خطاب میں ایک بار پھر اس بات پر زور دیا کہ صوبے میں امن و سلامتی کی بحالی کے مربوط اور سنجیدہ کوششیں جاری رکھنے کی ضرورت ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ بلوچستان میں امن و خوشحالی پورے ملک کی ترقی و سلامتی کے لیے ضروری ہے۔
نیو سریاب کے علاقے میں دیسی ساختہ بم ایک رکشے میں نصب کر کے اسے ایک تھانے کے قریب کھڑا کیا گیا تھا جس میں حکام کے بقول ریموٹ کنٹرول سے اُس وقت دھماکا کیا گیا جب وہاں سے فرنٹئیر کور کی گاڑی گزر رہی تھی۔
دھماکے سے ایک سات سالہ بچی موقع پر ہی ہلاک جب کہ دو ایف سی اہلکاروں سمیت ڈیڑھ درجن افراد زخمی ہوگئے۔
اس واقعے کی تاحال کسی فرد یا گروہ نے ذمہ داری قبول نہیں کی لیکن ماضی میں ایسی پرتشدد کارروائیوں کی ذمہ داری حکام علیحدگی پسند عسکری تنظیموں پر عائد کرتے رہے ہیں۔
یہ واقعہ ایک ایسے وقت پیش آیا جب ایک روز قبل ہی صوبائی حکومت، فوج اور دیگر قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اعلیٰ عہدیداروں نے امن و امان کے قیام کے لیے بھرپور اور مربوط کوششیں جاری رکھنے کا عزم ظاہر کیا۔
کوئٹہ میں ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے سدرن کمانڈ کے سربراہ لیفٹیننٹ جنرل نصیر جنجوعہ نے کہا کہ فوج دیگر اداروں کے ساتھ مل کر سلامتی کی صورت حال کو بہتر بنانے کی کوششیں کر رہی ہے، جس کی بدولت حالات میں ماضی کی نسبت بہتری آئی اور اُن کے بقول بہت جلد علاقے میں امن بحال ہو جائے گا۔ ان کا کہنا تھا کہ صوبائی حکومت اور اُن کے درمیان مکمل ہم آہنگی ہے۔
’’جو پاکستانی فوج ہے ہمارے ساتھ ایف سی ہے، پولیس ہے ہم سب اکٹھے ہوکر ایک ہی سمت میں دیکھ رہے ہیں ایک ہی چیز کی حمایت کرنا چاہتے ہیں اور سیاسی عمل کے ذریعے آگے بڑھنا چاہتے ہیں۔ دن رات اسی کوشش میں لگے ہوئے ہیں کہ بلوچستان کا امن بحال کیا جائے۔‘‘
لیفٹیننٹ جنرل نصیر جنجوعہ نے صوبے کے عوام سے اپیل کی کہ وہ کے حالات کو پرامن بنانے کے لیے سیکورٹی اداروں سے بھرپور تعاون کریں ۔
وزیراعلیٰ عبدالمالک بلوچ بھی اس تقریب میں موجود تھے جنہوں نے اپنے خطاب میں ایک بار پھر اس بات پر زور دیا کہ صوبے میں امن و سلامتی کی بحالی کے مربوط اور سنجیدہ کوششیں جاری رکھنے کی ضرورت ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ بلوچستان میں امن و خوشحالی پورے ملک کی ترقی و سلامتی کے لیے ضروری ہے۔