کوئٹہ —
بلوچستان کی حکومت کی جانب سے منعقد کیا جانے والا کھیلوں کا میلہ بدستور جاری ہے اور صوبائی دارالحکومت میں مختلف کھیلوں کے میدانوں، کمپلیکس اور اسٹیڈیمز میں لڑکوں اور لڑکیوں کے درمیان کھیلوں کے مقابلے جاری ہیں۔
اسی سلسلے میں گورنمنٹ گرلز کالج کوئٹہ میں بہادُر خان ویمن یونیورسٹی اور گرلز کالج کو ئٹہ کے درمیان فٹ بال کا فائنل کھیلا گیا جو بہادر یونیورسٹی کی خواتین ٹیم نے جیت لیا۔ اس موقع پر گراﺅنڈ میں موجود لڑکیوں کا جوش وخروش دیدنی تھا۔
گرلزکالج کو ئٹہ میں لڑکیوں کے لئے مختلف کھیلوں کے مقابلے کا انعقاد کرنے والی آرگنائزر پروفیسر ڈاکٹر شگفتہ اقبال نے وائس اف امر یکہ کو بتایا کہ ان مقابلوں سے بچے بہت کچھ سیکھتے ہیں۔
"یہ ان کی شخصیت سازی کا ایک حصہ ہے۔ ہارنے کے بعد جو رویے ہوتے ہیں اس سے بچے بہت کچھ سیکھتے ہیں، برداشت کا جو جذبہ اور ایک دوسرے کے ساتھ مل کر رہنا اور اسے سراہنا۔ ظاہر ہے دوسرے کی جیت کو سراہنے کے لیے بھی حوصلہ چاہیے۔"
مختلف کھیلوں میں حصہ لینے والی لڑکیوں کا کہنا تھا کہ اس طر ح کے میلے بلوچستان کے تمام اضلاع میں منعقد ہونے چاہئیں۔
سال دوئم کی ایک طالبہ مہوش کہتی ہیں کہ طلبا سارا سال پڑھائی سے یکسانیت کا شکار ہو جاتے ہیں "تو اس طرح کے میلے ان کے ذہن کو تازگی دیتے ہیں اور یہ بہت ضروری ہیں۔"
ہزارہ برادری سے تعلق رکھنے والی ایک طالبہ سیدہ بتول کہتی ہیں کہ " کھیلوں ہی سے تو لوگوں کی حوصلہ افزائی ہوتی ہے، خاص طور پر ہزارہ لوگوں کے لیے یہ ایک خاص چیز ہے۔ اس میں یہ لوگ اگر زیادہ حصہ لیں گے تو سب کو پتا چلے گا کہ ہم ہارنے والوں میں
سے نہیں۔"
وزیراعلیٰ ڈاکٹر مالک بلوچ کا کہنا ہے کہ حکومت چاہتی ہے کہ بلوچستان کی خواتین بھی دیگر صوبوں کے عوام کی طرح آگے آئیں اور سپورٹس میں بھرپور حصہ لیں۔
قدرتی وسائل سے مالا مال لیکن پسماندہ ترین صوبے بلوچستان میں حالیہ برسوں میں امن و امان کی صورتحال بھی غیر تسلی بخش رہی ہے جس سے یہاں تقافتی سرگرمیاں بھی متاثر ہوتی رہی ہیں۔
لیکن مبصرین کا کہنا ہے کہ میلے اور ایسی ثقافتی سرگرمیاں لوگوں کے درمیان امن و آشتی کے فروغ کے لیے اہم کردار ادا کرسکتی ہیں لہذا ان کے اہتمام کے لیے خصوصی اقدامات کیے جانے چاہیئں۔
اسی سلسلے میں گورنمنٹ گرلز کالج کوئٹہ میں بہادُر خان ویمن یونیورسٹی اور گرلز کالج کو ئٹہ کے درمیان فٹ بال کا فائنل کھیلا گیا جو بہادر یونیورسٹی کی خواتین ٹیم نے جیت لیا۔ اس موقع پر گراﺅنڈ میں موجود لڑکیوں کا جوش وخروش دیدنی تھا۔
گرلزکالج کو ئٹہ میں لڑکیوں کے لئے مختلف کھیلوں کے مقابلے کا انعقاد کرنے والی آرگنائزر پروفیسر ڈاکٹر شگفتہ اقبال نے وائس اف امر یکہ کو بتایا کہ ان مقابلوں سے بچے بہت کچھ سیکھتے ہیں۔
"یہ ان کی شخصیت سازی کا ایک حصہ ہے۔ ہارنے کے بعد جو رویے ہوتے ہیں اس سے بچے بہت کچھ سیکھتے ہیں، برداشت کا جو جذبہ اور ایک دوسرے کے ساتھ مل کر رہنا اور اسے سراہنا۔ ظاہر ہے دوسرے کی جیت کو سراہنے کے لیے بھی حوصلہ چاہیے۔"
مختلف کھیلوں میں حصہ لینے والی لڑکیوں کا کہنا تھا کہ اس طر ح کے میلے بلوچستان کے تمام اضلاع میں منعقد ہونے چاہئیں۔
سال دوئم کی ایک طالبہ مہوش کہتی ہیں کہ طلبا سارا سال پڑھائی سے یکسانیت کا شکار ہو جاتے ہیں "تو اس طرح کے میلے ان کے ذہن کو تازگی دیتے ہیں اور یہ بہت ضروری ہیں۔"
ہزارہ برادری سے تعلق رکھنے والی ایک طالبہ سیدہ بتول کہتی ہیں کہ " کھیلوں ہی سے تو لوگوں کی حوصلہ افزائی ہوتی ہے، خاص طور پر ہزارہ لوگوں کے لیے یہ ایک خاص چیز ہے۔ اس میں یہ لوگ اگر زیادہ حصہ لیں گے تو سب کو پتا چلے گا کہ ہم ہارنے والوں میں
سے نہیں۔"
وزیراعلیٰ ڈاکٹر مالک بلوچ کا کہنا ہے کہ حکومت چاہتی ہے کہ بلوچستان کی خواتین بھی دیگر صوبوں کے عوام کی طرح آگے آئیں اور سپورٹس میں بھرپور حصہ لیں۔
قدرتی وسائل سے مالا مال لیکن پسماندہ ترین صوبے بلوچستان میں حالیہ برسوں میں امن و امان کی صورتحال بھی غیر تسلی بخش رہی ہے جس سے یہاں تقافتی سرگرمیاں بھی متاثر ہوتی رہی ہیں۔
لیکن مبصرین کا کہنا ہے کہ میلے اور ایسی ثقافتی سرگرمیاں لوگوں کے درمیان امن و آشتی کے فروغ کے لیے اہم کردار ادا کرسکتی ہیں لہذا ان کے اہتمام کے لیے خصوصی اقدامات کیے جانے چاہیئں۔