تمام مشکلات کے باوجود پاکستان ریلوے نے عید الضحیٰ پر خصوصی ٹرینیں چلانے کا اعلان کیا تھا اور کراچی سے پشاور اور کوئٹہ سے راولپنڈی کے علاوہ لاہور اور راولپنڈی کے درمیان ریل کار بھی خصوصی طور پر چلائی گئی تھی۔
مگر مسافروں کی تعداد زیادہ ہونے کے سبب ریلوے اسٹیشنوں پر لوگوں کا ہجوم دیکھنے میں آیا۔ لاہور کے ریلوے اسٹیشن پرموجود مسافروں میں سے ایک نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ’’عید کا موقع ہے لیکن کئی گھنٹوں سے انتظار میں بیٹھے ہیں۔ لاری اڈے پر گئے وہاں گاڑیاں ہی نہیں ہیں جو ہیں وہ اپنی مرضی کر رہے ہیں ‘‘۔
ریلوے ملازمین کی تنخواہوں اور پینشنوں کے مسائل تو ہیں تاہم وہ مایوس ہرگز نہیں ہیں۔ محکمہ کے ایک پرانے ملازم علیم الدین جو ریٹائرمنٹ کے قریب ہیں کہتے ہیں کہ محکمہ مسائل کا شکار ضرور ہے لیکن صورتحال بہتر ہو سکتی ہے۔ لاہور ریلوے اسٹیشن پر تعینات انفارمیشن منیجر بھی اس سے متفق ہیں وہ عید کے دنوں پر اسٹیشن پر ٹکٹوں کی فروخت کے حوالے سے بات کرتے ہوئے کہتے ہیں۔
’’ عید پر ہمارا کیش آج کل سے چار گنا زیادہ ہوا کرتا تھا اس عید پر کم ہے لیکن عام دنوں کے مقابلے میں آمدن بڑھی ہے ۔‘‘
مسائل کا شکار پاکستان ریلوے کا محکمہ گزشتہ برس کے وسط تک 250 سے زیادہ ریل گاڑیاں چلاتا تھا۔ جب تیز رو اور شالیمار ایکسپرس جیسی ٹرینیں بند کرنے کا فیصلہ ہوا۔ ریلوے کے عہدیداران کا کہنا ہے کہ اس برس ان کو120 کے قریب گاڑیاں بند کرنا پڑی ہیں۔
وفاقی وزارت کے سیکرٹری وقار مسعود خان نے صحافیوں کو حالیہ بریفنگ میں بتایا کہ ریلوے کی آمدن تین برس پہلے سالانہ 28 ارب روپے تھی۔ جو اب کم ہو کر آدھی رہ گئی ہے۔ جب کہ اس محکمہ کے ذمہ واجب الادا رقم 48 ارب روپے ہو چکی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ریلوے کی آمدن کا بڑا ذریعہ مال گاڑیاں تھیں جن کی ان کے بقول محض 50 چل رہی ہیں۔
اسی صورتحال کی روشنی میں وزیراعظم گیلانی کہہ چکے ہیں کہ کابینہ کی خصوصی کمیٹی کی ہدایت کی روشنی میں ریلوے کے محکمے کی ترجیہی بنیادوں پر تشکیل نو ہو گی۔