پاکستان کی طرح متحدہ عرب امارات کی تمام ریاستوں میں بھی قربانی کے جانوروں کی منڈیاں لگائی جاتی ہیں تاہم ہر ریاست میں انتظامیہ کی جانب سے ان جانوروں کی فروخت کے لیے ایک مخصوص جگہ متعین کی جاتی ہے۔
لیکن یہاں قربانی گلی محلوں یا اپنی رہائش گاہ کے باہر نہیں کی جاسکتی بلکہ جانوروں کو ذبح کرنے کے لیے سلاٹر ہاوٴس یا مذبح خانوں لے جایا جاتا ہے جہاں موجود ڈاکٹرز کی جانب سے طبی معائنہ کے بعد اُنھیں قربان کیا جاتا ہے۔
اس کا مقصد جانوروں میں موجود بیماریوں کو انسانوں میں منتقلی سے روکنا ہے۔ جب کہ ذبح کرنے کے بعد بھی گوشت کا معائنہ کیا جاتا ہے کہ آیا اس گوشت کا استعمال مضرِ صحت تو نہیں۔
پاکستان میں قربانی کے حوالے سے ماحول مختلف نظر آتا ہے۔ شہروں اور دیہات میں جانوروں کی قربانی سے متعلق بظاہر تو کوئی قانون موجود نہیں اور اگر ہے بھی تو نافذ العمل نہیں۔
جگہ جگہ جانوروں کی منڈیاں نظر آتی ہیں جو کہیں حجم میں چھوٹی تو کہیں بہت بڑی ہوتی ہیں۔ پھر عموماً لوگ اپنی رہائش گاہوں کے باہر جانور زبح کرتے ہیں۔ ایسے میں صفائی کے ناقص نظام کی وجہ سے ماحولیاتی آلودگی میں اضافہ ہوتا ہے اور مختلف بیماریاں جنم لیتی ہیں، جب کہ متحدہ عرب امارات کی طرح پاکستان میں جانوروں کے ذبح سے قبل طبی معائنے کا رجحان بھی نہیں ہے۔
متحدہ عرب امارات میں دوسرے ممالک سے قربانی کے لیے آنے والے جانوروں کے معائنہ کے لیے ایئر پورٹ پر بھی ویٹرنری سیکشن ہوتا ہے اور اس بات کو یقینی بنانے کی پوری کوشش کی جاتی ہے کہ یہ جانور بیماریوں سے پاک اور قربانی اور استعمال کے لیے محفوظ ہوں۔ بیشتر جانور یہاں پر ایران، بھارت اور آسٹریلیا سے لائے جاتے ہیں۔
مویشی منڈی میں موجود پاکستانی بیوپاریوں کے بقول پاکستان کے جانوروں کی قیمت زیادہ ہونے کی وجہ سے یہاں اُنھیں برآمد کرنے کا رجحان اب نہ ہونے کے برابر ہے اور اس سال حکومتِ پاکستان کی جانب سے ان کی یہاں برآمد بھی روک دی گئی ہے۔
ایک شخص نے وائس آف امریکا کو بتایا کہ پاکستان میں گوشت پانچ سو روپے کلو ہے تو یہاں کیسے لائیں۔
مگر جانوروں کی قیمتیں صرف پاکستان میں نہیں بلکہ متحدہ عرب امارات میں بھی لوگوں کی خرید سے باہر ہوتی جارہی ہیں۔ یہ 400 درہم سے شروع ہوتی ہیں اور 2,000 درہم سے زائد قیمت کے جانور بھی یہاں پر موجود ہیں۔
دبئی کی مویشی منڈی میں پاکستانی بیوپاری اور خریدار دونوں ہی موجود تھے۔
پشاور سے تعلق رکھنے والے طارق خان یہاں ڈرائیور ہیں اور بکرا خریدنے آئے ہیں۔ اُنھوں نے بتایا کہ ’’عید کے دنوں میں یہاں جانور بہت مہنگا ہوجاتا ہے جو بکرا پہلے چھ سو درہم میں تھا اب 1,200، 1,500 اور 1,800 درہم میں مل رہا ہے۔‘‘
مویشی منڈی میں موجود بیوپاریوں نے بتایا کہ قربانی کے لیے مقامی لوگ ایران سے آئے جانوروں کو ترجیح دیتے ہیں اور عموماً چھوٹے جانوروں کو پسند کیا جاتا ہے۔ ان کی قیمتیں سب سے زیادہ ہوتی ہیں، جب کہ کم آمدنی والے لوگ دیگر ممالک کے یا پھر مقامی جانور خریدتے ہیں۔
اپنے پیاروں کو بہتر زندگی فراہم کرنے کے لیے دیارِ غیر میں روزگار کے لیے آئے یہ لوگ تنہائی سمیت کئی کٹھن مراحل کا سامنے کرتے ہیں۔ ہر شخص کی یہ خواہش رہتی ہے کہ وہ عید اپنے وطن میں اپنے لوگوں کے ساتھ منائے، اور جب یہی سوال ان سے پوچھا جاتا ہے تو ایک اداس مسکراہٹ ان کے چہروں پر پھیل جاتی ہے۔
تاہم یہاں بسنے والے اکثر لوگ جن کی عید پردیس میں گزرتی ہے، جانوروں کی خریداری اور پھر انھیں ذبح کرنے کے لیے مذبح خانوں تک لے جانے کی پریشانیوں سے بچنے کے لیے قربانی کی رقم اپنے وطن بھجوا دیتے ہیں جہاں ان کی طرف سے یہ فریضہ ان کے گھر والے ادا کرتے ہیں۔