محکمہ ریلوے کو درپیش مالی مشکلات اور انتظامی مسائل کے باعث حالیہ مہینوں میں 115 مسافر ٹرینیں بند ہو چکی ہیں جب کہ ادارے کے ہزاروں ملازمین تنخواہیں وقت پر نا ملنے کے باعث سراپا احتجاج ہیں۔
اس صورت حال سے نا صرف مسافر پریشان ہیں بلکہ وہ افراد جن کا ریلوے اسٹیشنوں سے روزگار جڑا ہوا ہے وہ بھی کسمپرسی کا شکار ہیں۔
راولپنڈی کے ریلوے اسٹیشین کا شمار ملک کے بڑے اسٹیشنوں میں ہوتا ہے جہاں پشاور، لاہور اور کراچی سمیت دوسرے شہروں سے آنے والی دو درجن سے زائد ریل گاڑیاں روزانہ آ کر رکتیں تھیں لیکن اب یہ تعداد محض چند گاڑیوں پر مشتمل ہے۔
ریلوے اسٹیشن پر قائم اسٹالز کے مالکان اور ان پر کام کرنے والے افراد کا کہنا ہے کہ اب تو بسا اوقات یہاں اجاڑ پن کا منظر ہوتا ہے۔
ٹرین کے انتظار میں بیٹھے راجہ محمد گلزار نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ انھوں نے کراچی جانے کے لیے ریل کے سفر کا انتخاب صرف اس لیے کیا کہ یہ ایک سستی سواری ہے۔
’’ریلوے غریب عوام کا ہے اس میں غریب لوگ بیٹھتے ہیں، جو امیر ہیں وہ ہوائی جہازوں یا کوچوں (بسوں) میں جاتے ہیں اور ہم غریب جو بالکل پسے ہوئے ہیں وہ اس ریلوے میں بیٹھتے ہیں۔‘‘
ریلوے اسٹیشن پر موجود بعض مسافروں نے بتایا کہ وہ کئی برسوں سے ریل گاڑی کے ذریعے سفر کرتے آئے ہیں لیکن ان کے بقول جن مشکلات سے وہ اب دوچار ہیں پہلے ایسا کبھی نہیں ہوا۔
محمد بشارت 22 سال سے راولپنڈی ریلوے اسٹیشن پر بطور کلی کام کرتے ہیں اور ان کا کہنا ہے کہ مسافر ٹرینوں کی بندش اور وقت پر ریل گاڑیوں کے نا پہنچنے کے باعث مسافروں کی تعداد میں نمایاں کمی ہوئی جس سے ان کا روزگار ٹھپ ہو گیا ہے۔
’’پہلے تو مزدوری بھی ٹھیک تھی ابھی تو مزدوری بھی نہیں ہے۔ کل سے اب تک 150 روپے کمایا ہے اس رقم سے کیا کروں، روٹی کھاؤں، سگریٹ خریدوں یا گھر والوں کو دوں۔‘‘
محمد ساجد نے 15 سال قبل راولپنڈی ریلوے اسٹیشن پر ایک اسٹال کرائے پر حاصل کیا تھا لیکن اب متبادل روزگار کی تلاش میں ہیں۔ ’’ریل گاڑیاں چل ہی نہیں رہی ہیں مسافروں نے ادھر کا رخ کرنا ہی چھوڑ دیا ہے، لوگ بس اڈوں کا رخ کر رہے ہیں۔ گاڑیاں ہوں گی تو مسافر آئیں گے۔ تین یا چار گاڑیاں لاہور تک چلتی ہیں۔ کراچی جانے والی گاڑیاں 12 سے 15 گھنٹے تاخیر سے آتی ہیں۔‘‘
رواں ہفتے وفاقی وزیر برائے ریلوے غلام احمد بلور نے نیوز کانفرنس میں بتایا کہ ریلوے کو مسلسل خسارے کا سامنا ہے اور رواں سال محکمے کی آمدن لگ بھگ 12 ارب روپے ہو گی جب کہ سالانہ اخراجات 60 ارب روپے ہیں جن میں سے نصف رقم ادارے کے ملازمین کی تنخواہوں اور پینشن کے لیے درکار ہوتی ہے۔