پاکستان نے امکان ظاہر کیا ہے کہ نیٹو کا حملہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں دوطرفہ تعاون پر سنگین نتائج مرتب کر سکتا ہے اور اس الزام کی بھی سختی سے تردید کی گئی ہے کہ مہمند ایجنسی میں ہونے والی مہلک فضائی کارروائی سے قبل پاکستانی فوجیوں کی جانب سے اتحادی افواج پر فائرنگ کی گئی تھی۔
فوج کے ترجمان میجر جنرل اطہر عباس نے پیر کو وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان کی جانب سے سرحد پار کوئی فائرنگ نہیں کی گئی۔ ’’یہ (الزام) درست نہیں، وہ (نیٹو عہدے دار) بہانے گھڑ رہے ہیں۔ اور اگر یہ درست ہے تو پھر جانی و مالی نقصانات کے بارے میں کیوں نہیں بتایا گیا؟‘‘
اُنھوں نے کہا کہ سرحدی چوکیوں پر نیٹو طیاروں کی فائرنگ اور گولہ باری شروع ہوتے ہی اتحادی افواج کے علاقائی ہیڈکوارٹرز کو مطلع کر دیا گیا لیکن اس کے باوجود یہ حملہ تقربیاً دو گھٹنے تک جاری رہا۔
ترجمان کے بقول پاکستانی فوج نے افغان سرحد سے ملحقہ قبائلی علاقوں میں قائم چوکیوں کی مکمل تفصیلات اتحادی افواج کو فراہم کر رکھی ہیں اور نیٹو کا یہ موقف کہ حملہ غیر دانستہ طور پر کیا گیا سراسر غلط ہے۔
اُن کا کہنا تھا کہ فوج نے ایک بڑے آپریشن کے بعد مہمند ایجنسی کو عسکریت پسندوں سے مکمل طور پر پاک کر دیا ہے اور اس صورت حال میں نیٹو کا یہ کہنا درست نہیں کہ یہاں شدت پسندوں کے ٹھکانے موجود ہیں۔ جنرل عباس کے مطابق مہمند ایجنسی میں عسکریت پسندوں کے خلاف کی گئی کارروائی میں افسران سمیت 70 سے زائد فوجی اہلکار ہلاک جبکہ 250 زخمی ہوئے۔
اُدھر افغانستان میں تعینات بین الاقوامی افواج کے ترجمان نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ سلالہ میں ہونے والے حملے کے حقائق جاننے کے لیے تحقیقات جاری ہیں اور ان کو اولین ترجیح دی جا رہی ہے۔
افغان سرحد سے ملحقہ مہمند ایجنسی کے علاقے سلالہ میں ہفتہ کو علی الصباح نیٹو کے لڑاکا طیاروں اور گن شپ ہیلی کاپٹروں نے پاکستانی سکیورٹی فورسز کی دو چوکیوں پر حملہ کیا تھا جس میں دو افسران سمیت 24 فوجی اہلکار ہلاک اور ایک درجن سے زائد زخمی ہو گئے تھے۔
پاکستان کا کہنا ہے کہ یہ ایک ’’بلا اشتعال‘‘ کارروائی تھی، لیکن افغان عہدے داروں نے اتوار کو دعویٰ کیا کہ سرحدی علاقے میں گشت کرنے والے مقامی اور بین الاقوامی افواج کے اہلکاروں پر فائرنگ ہوئی تھی جس کے بعد اُنھوں نے اپنے دفاع میں فضائی حملے کے لیے درخواست کی۔
نیٹو کے سیکرٹری جنرل اینڈرز راسموسن نے پاکستان کو فوجیوں کی ’’المناک اور غیر ارادی‘‘ ہلاکتوں کی مفصل تحقیقات کی یقین دہانی کرائی ہے۔
اُنھوں نے پاکستانی وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی کو بتایا کہ یہ ہلاکتیں ’’ناقابل قبول اور افسوس ناک‘‘ ہیں۔
نیٹو کے حملے کے خلاف پاکستان میں جہاں سرکاری سطح پر بین الاقوامی برادری سے احتجاج کیا جا رہا ہے وہیں ملک کے مختلف علاقوں میں اس کے خلاف مظاہرے بھی جاری ہیں اور وکلاء برادری پیر کو ملک بھر میں ہڑتال کر رہی ہے۔