پاکستان اور روس نے 'پاکستان اسٹریم' گیس پائپ لائن کی تعمیر کے لیے 15 فروری تک ایک معاہدے پر دستخط کرنے پر اتفاق کیا ہے۔ اس معاہدے سے قبل فریقین کے درمیان خصوصی کمپنی کے قیام کے لیے 31 جنوری 2022 تک قانونی دستاویز تیار کرنے پر بھی اتفاق ہوا ہے۔
پاکستان کے سرکاری میڈیا پر جاری ایک بیان کے مطابق گیس پائپ لائن کا اعلان روس کے شہر یاکاترنبرگ میں پاکستان اور روس کے ساتویں بین الحکومتی وزارتی کمیشن کے دو روزہ اجلاس کے اختتام کے موقع پر جمعے کو جاری اعلامیے میں سامنے آیا ہے۔
اعلان کے مطابق دونوں ملکوں کے درمیان تجارت اور سائنس سمیت دیگر شعبوں میں تعاون کے کئی معاہدوں پر دستخط ہوئے ہیں جب کہ روس نے پاکستان کو مقامی سطح پر تیار کردہ مسافر طیارے فروخت کرنے میں دلچسپی کا اظہار کیا ہے۔
بیان کے مطابق پاکستان اور روس کے درمیان موجودہ تجارتی حجم لگ بھگ 79 کروڑ ڈالر تک پہنچ گیا ہے لیکن یہ تجارتی حجم پاکستان اور روس کے درمیان تجارت کے امکانات سے مطابقت نہیں رکھتا۔
یاد رہے کہ پاکستان اور روس نے 2015 میں 1100 کلو میٹر طویل گیس پائب لائن تعمیر کرنے پر اتفاق کیا تھا لیکن یہ منصوبہ التوا کا شکار ہوتا رہا۔ ایک بار پھر یہ دونوں ملک اس منصوبے کو پایۂ تکمیل تک پہنچانے کے لیے پرعزم ہیں اور اس ضمن میں باقاعدہ معاہدے کے لیے ایک ٹائم ٹیبل سامنے آیا ہے۔
پاکستان اور روس کے درمیان تعلقات کو فروغ دینے کے لیے ہونے والی تازہ پیش رفت گزشتہ چند برسوں کے دوران دونوں ممالک کے درمیان ہونے والے اعلیٰ سطح کے رابطوں کا تسلسل قرار دیا جا رہا ہے۔
سابق سویت یونین میں پاکستان کے سابق سفیر شاہد امین نے کہا ہے کہ پاکستان اور روس کے تعلقات میں گزشتہ چند برسوں کے دوران بتدریج بہتری آرہی ہے اور دونوں ملکوں کے درمیان تجارتی تعلقات کو وسعت دینے کے مواقع موجود ہیں۔
'روس سی پیک کے ساتھ منسلک ہو سکتا ہے'
شاہد امین نے وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ روس کا وسطی خطہ یورل پاکستان کے قریب ہے جو سی پیک کے ساتھ منسلک ہو سکتا ہے۔ لیکن اس بات کا انحصار اس بات پر ہوگا کہ افغانستان کے حالات کیا رخ اختیار کرتے ہیں۔
شاہد امین کہتے ہیں پاکستان چین کا ایک اسٹرٹیجک شراکت دار ہے جب کہ روس اور چین کے درمیان تعلقات بھی بتدریج بہتر ہو رہے ہیں لیکن ان کے بقول خطے کی بدلتی ہوئی جیو اسٹرٹیجک حالات کے باوجود ان تینوں ممالک کے درمیان اسٹرٹیجک اتحاد قائم ہونے کا فی الحال کوئی امکان نہیں۔
دوسری جانب بین الاقوامی امور کے ماہر حسن عسکری کا کہنا ہے کہ روس خطے میں اپنے آپشنز بڑھا رہا ہے لیکن جنوبی ایشیا کے حوالے سے روس کی پہلی ترجیح بھارت ہے۔ ان کے بقول جس طرح بھارت امریکہ کے ساتھ تعلقات بڑھا رہا ہے اسی طرح روس بھی یہ دکھانا چاہتا ہے کہ اس کے پاس آپشن ہے اور وہ پاکستان کے ساتھ اپنے تعلقات پہلے کی نسبت بہتر کر رہا ہے۔
انہوں نے کہا کہ اگرچہ اسلام آباد اور ماسکو کی کوشش ہے کہ باہمی تعلقات بہتر ہوں لیکن یہ رفتار بہت سست ہے۔
سابق سفارت کار شاہد امین کہتے ہیں بھارت کے امریکہ کے ساتھ اسٹرٹیجک تعلقات کے باوجود روس کا بھارت میں کافی اثر و سوخ اور مفاد وابستہ ہے۔ دونوں ملکوں کے دفاعی تعلقات بدستور قائم ہیں اور حال ہی میں روس نے بھارت کو ایس 400 میزائل سسٹم بھی فراہم کیا ہے۔