پاکستان کے وزیرِ خارجہ شاہ محمود قریشی نے متنبہ کیا ہے کہ افغانستان تباہی کے دہانے پر کھڑا ہے، لہذٰا عالمی برادری اس کی انسانی بنیادوں پر فوری مدد کرے۔
ان خیالات کا اظہار شاہ محمود قریشی نے جمعرات کو افغانستان سے متعلق ٹرائیکا پلس ممالک کے اجلاس کے افتتاحی سیشن کے دوران کہی جس میں امریکہ، چین اور روس کے مندوبین نے بھی شرکت کی۔
شاہ محمود قریشی نے کہا کہ افغانستان کو فوری امداد فراہم نہ کی گئی تو طالبان کی نئی حکومت کی ملک چلانے کی استعداد کار نہایت محدود ہو جائے گی جب کہ ملک میں قحط کا خطرہ بھی بڑھ جائے گا۔
ٹرائیکا پلس اجلاس میں امریکہ کے نمائندۂ خصوصی برائے افغانستان تھامس ویسٹ بھی شریک ہوئے۔
وزیرِ خارجہ قریشی نے افغانستان کے منجمد اثاثوں تک افغانستان کو رسائی دینے پر بھی زور دیا تاکہ افغانستان میں معاشی اور اقتصادی سرگرمیاں بحال ہو سکیں۔
بعدازاں ذرائع ابلاغ سے گفتگو کرتے وزیرِ خارجہ قریشی نے کہا کہ افغانستان کو اقتصادی تباہی سے بچانا اور مہاجرین کے بحران اور دہشت گردی کے عفریت کا خاتمہ ایک متفقہ اور مشترکہ کوششوں سے ہی ممکن ہے۔ بصورت دیگر ان کے بقول اگر افغانستان میں کوئی بگاڑ پیدا ہو گا تو پاکستان کے ساتھ ساتھ مغربی دنیا بھی اس سے متاثر ہو گی۔
'مغربی ممالک تاریخ سے سبق سیکھیں'
وزیرِ خارجہ نے باور کرایا کہ اگر آپ سمجھتے ہیں کہ یورپ اس خطے سے دور ہے اور یہاں آنے والی تباہی کے اثرات سے محفوظ رہے گا تو یہ غلط فہمی ہو گی۔ اُن کا کہنا تھا کہ مغربی ممالک تاریخ سے سبق سیکھیں۔
وزیرِ خارجہ نے کہا کہ پاکستان نے تاریخ سے سبق سیکھا ہے اور اب ماضی کی غلطیاں نہیں دہرائی جائیں گی۔
شاہ محمود قریشی نے مزید کہا کہ پاکستان افغانستان کے امن و استحکام کے لیے ذمے دارانہ اور کلیدی کردار ادا کر رہا ہے۔
وزیرِ خارجہ نے کہا کہ افغانستان کے ہمسایہ ممالک کا آئندہ اجلاس چین میں ہو گا اور وہاں طالبان وفد کو بھی شرکت کی دعوت دیں گے تاکہ وہ اپنے تحفظات سے بین الاقوامی برادری کو آگاہ کر سکیں۔
شاہ محمود قریشی نے کہا کہ طالبان حکومت کے وزیرِ خارجہ امیر خان متقی بھی 20 رکنی اعلیٰ سطحی وفد کے ہمراہ اسلام آباد میں ہیں اور وہ ٹرائیکا پلس اجلاس کی پیش رفت سے اُنہیں آگاہ کریں گے۔
طالبان وفد کی اسلام آباد میں مصروفیات
افغانستان کے لیے پاکستان کے نمائندۂ خصوصی محمد صادق نے ایک ٹوئٹ میں بتایا کہ پاکستان کے دورے پر آئے طالبان حکومت کے وزیرِ خارجہ اور اعلٰی سطحی وفد، روس، چین اور امریکہ کے نمائندوں سے جمعرات کو ملاقات کرے گا۔
طالبان کا وفد بدھ کو کابل سے اسلام آباد پہنچا تھا جہاں افغانستان کے پاکستان میں نمائندہ خصوصی محمد صادق نے وفد کا استقبال کیا تھا۔
خیال رہے کہ پاکستان نے طالبان کی حکومت کو باضابطہ طور پر تسلیم نہیں کیا۔ لیکن پاکستان کے وزیرِ خارجہ نے ایک بار پھر عالمی برادری کو باور کرایا کہ وہ افغان عوام کی مشکلات کو کم کرنے کے لیے فوری طور پر انسانی امداد اور معاشی مدد فراہم کریں۔
دوسری جانب افغانستان کی طالبان حکومت اس بات کی خواہاں ہے کہ عالمی برادری ان کی حکومت کو تسلیم کرے اور افغانستان کو درپیش اقتصادی بحران سے نمٹنے کے لیے افغانستان کے منجمد اثاثوں کو بحال کیا جائے۔
'طالبان حکومت کو تسلیم کرنا فی الحال مشکل ہے'
بین الاقوامی امور کے تجزیہ کار زاہد حسین کا کہنا ہے کہ جمعرات کو اسلام آباد میں ہونے والے ٹرائیکا پلس اجلاس میں طالبان حکومت کو تسلیم کرنے کے حوالے سے شاید کوئی پیش رفت نہ ہو سکے۔ لیکن افغانستان کے عوام کے درپیش معاشی مشکلات کے ازلے لیے امداد فراہم کرنے کے طریقۂ کار کے معاملے پر شاید کوئی مفاہمت طے پا جائے۔
زاہد حسین کے بقول پاکستان طالبان حکومت کو تسلیم کیے بغیر ان سے رابطے رکھے ہوئے ہے اور بین الاقوامی برادری پر بھی زور دے رہا ہے کہ طالبان سے انسانی بنیادوں پر روابط رکھے جائیں تاکہ ملک کو کسی بڑی تباہی سے بچایا جا سکے۔
زاہد حسین کہتے ہیں کہ علاقائی ممالک کی سوچ میں ایک ہم آہنگی موجود ہے کہ کہ طالبان حکومت کے ساتھ تعمیری رابطے رکھنے چاہئیں، کیوں کہ اگر افغانستان میں انسانی بحران پیدا ہو گا تو اس کے اثرات نہ صرف افغانستان بلکہ خطے کے لیے اس کے سنگین نتائج سامنے آ سکتے ہیں۔
زاہد حسین کا کہنا ہے کہ اس حوالے سے ٹرائیکا پلس ممالک کا اجلاس نہایت اہمیت کا حامل ہے جب کہ طالبان کا وزارتی وفد بھی اسلام آباد میں موجود ہے۔
زاہد حسین کا کہنا ہے کہ بین الاقوامی برداری افغانستان کے عوام کی اقتصادی مشکلات کو دور کرنے کے لیے امداد دینے پر تیار ہے لیکن امداد تقسیم کرنے کے معاملے پر ان میں بعض امور پر اختلافات موجود ہیں۔
زاہد حسین کا کہنا ہے کہ طالبان حکومت کو تسلیم کرنے کے حوالے سے تمام علاقائی اور مغربی ممالک کے اپنے اپنے تحفظات ہیں۔
اُن کے بقول علاقائی ممالک اس بات کے حامی ہیں کہ طالبان حکومت کو تسلیم کیے بغیر ان کے ساتھ سرگرمی سے رابطے کرنے چاہئیں۔
زاہد حسین کا کہنا ہے کہ طالبان کو بھی لچک کا مظاہرہ کرنا ہو گا کیونکہ ابھی تک خواتین کے حقوق اور انسانی حقوق کے حوالے سے طالبان کے رویے میں کوئی واضح تبدیلی کا اشارہ نہیں ملا۔
'ہماری آنکھوں کے سامنے افغانستان انسانی المیے کی جانب بڑھ رہا ہے'
جنوبی ایشیائی اُمور کے ماہر تجزیہ کار مائیکل کوگل مین کا کہنا ہے کہ ہماری آنکھوں کے سامنے افغانستان آہستہ آہستہ انسانی المیے کی جانب بڑھ رہا ہے، لیکن اب بھی امریکہ کی اس حوالے سے کوئی حکمتِ عملی سامنے نہیں آئی۔
اپنی ٹوئٹ میں کوگل مین کا کہنا تھا کہ امریکی نمائندۂ خصوصی کے دورۂ یورپ اور ایشیا سے یہ تاثر مل رہا ہے کہ امریکہ اب بھی مشاورت کے مراحل میں ہے جب کہ وقت تیزی سے ہاتھ سے نکل رہا ہے۔
پاکستان کے سابق سیکرٹری خارجہ شمشاد احمد خان کا کہنا ہے کہ پاکستان کی کوشش ہو گی کہ سیاسی مصلحتوں کو چھوڑ کر انسانی بحران کے خطرے سے نمٹنے کے لیے افغان عوام کی مدد کی جائے۔
شمشاد احمد خان کا کہنا ہے کہ مغربی ممالک بشمول امریکہ افغانستان سے انخلا کے دوران طالبان کے ساتھ رابطے میں رہے ہیں لیکن اب بعض سیاسی مصلحتوں کی وجہ سے شاید وہ طالبان کے ساتھ تعمیری روابط قائم کرنے کے لیے اتنے سرگرم نہیں ہیں۔
شمشاد احمد خان کے بقول علاقائی ممالک چاہتے ہیں کہ افغانستان میں جلد امن و استحکام قائم ہو لیکن ان کے بقول بین الاقوامی برادری کو بھی سیاسی مصلحتوں کو نظر انداز کرتے ہوئے افغانستان میں امن و استحکام کے لیے مل کر کام کرنا ہو گا۔