پاکستان اور روس کے درمیان پہلی مشترکہ فوجی مشقیں رواں سال کے اواخر میں متوقع ہیں تاہم اس بارے میں کسی بھی ملک کی طرف سے حتمی تاریخ کا اعلان نہیں کیا گیا۔
دونوں ہی ملکوں کے درمیان حالیہ برسوں میں تعلقات میں بہتری دیکھی گئی ہے۔
پاکستان اور روس کے درمیان طویل عرصے کے بعد تعلقات حالیہ برسوں میں بہتر ہونا شروع ہوئے اور روس نے خاص طور پر دفاعی شعبے میں پاکستان کے ساتھ تعاون کے فروغ کی یقین دہانی بھی کروائی ہے۔
روس نے پاکستان کو ہتھیاروں کی فراہمی پر عائد پابندی 2014 میں اٹھا لی تھی جب کہ روس کی طرف سے پاکستان کو لڑاکا ہیلی کاپٹروں کی فراہمی کا بھی معاہدہ طے پا چکا ہے۔
اسلام آباد کا موقف ہے کہ وہ بین الاقوامی برادری اور خصوصاً خطے کے ممالک کے ساتھ اپنے تعلقات کو فروغ دینے کا خواہاں ہے اور اس ضمن میں روس اور چین کے ساتھ تعلقات خاصی اہمیت کے حامل ہیں۔
حالیہ برسوں میں دونوں ملکوں کے اعلیٰ عسکری عہدیداران بھی ایک دوسرے کے ملک کا دورہ کر چکے ہیں جب کہ روس کی فوج کے سربراہ اولیک سَلوکوف نے اعلان کیا تھا کہ روسی زمینی فوج پہلی بار پاکستان کے ساتھ مشترکہ فوجی مشقیں کرے گی۔
پاکستان امریکہ کا دیرینہ اتحادی ہے لیکن ان کے تعلقات اتار چڑھاؤ کا شکار رہے ہیں۔ تاہم اسلام آباد کا کہنا ہے کہ وہ واشنگٹن کے ساتھ تعلقات کو بہت اہمیت دیتا ہے اور اس کے ساتھ ساتھ وہ دیگر بین الاقوامی طاقتوں کے ساتھ معاملات اور باہمی تعاون بہتر کر رہا ہے۔
دفاعی تجزیہ کار لفٹیننٹ جنرل ریٹائرڈ امجد شعیب نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ پاکستان کا روایتی طور پر جھکاؤ واشنگٹن اور مغربی ممالک ہی کی طرف رہا ہے۔
تاہم اُن کا کہنا تھا کہ بعض اُمور پر پاکستان اور امریکہ کے درمیان اختلاف کے سبب اب اسلام آباد ماسکو اور دیگر ممالک کے ساتھ تعلقات کو وسعت دینے کی کوششیں کر رہا ہے۔
’’پاکستان کے لیے آج بھی شاید ترجیح یہ ہوتی کہ امریکہ کے ساتھ اُس کے معاملات اسی طرح چلتا رہتے جس طرح پہلے تھے اور تعاون کی فضا رہتی۔۔۔روایتی طور پر ہماری عوام کا، پاکستان کی حکومتوں کا رجحان مغرب کی طرف رہا ہے اور روس کے ساتھ تعلقات بنانے میں کافی وقت لگا۔۔۔ میرا خیال ہے کہ حکومتوں کو پھر بھی چاہیئے وہ پوائنٹ آف نو ریٹرن سے بچیں۔۔۔ امریکہ کے ساتھ ایسے تعلقات رکھنے چاہیں کہ واپسی کے راستے بند نہ ہوں۔‘‘
پاکستان کی حکمران جماعت مسلم لیگ (ن) کے ایک سینیئر رہنما سینیٹر راجہ ظفر الحق نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ دنیا میں بدلتے حالات کے تناظر میں ممالک اپنی ترجحیات کے مطابق سفارتی پالیساں ازسر نو مرتب کر رہے ہیں۔
راجہ ظفر الحق کا کہنا تھا کہ اب وہ وقت نہیں کہ کسی ایک ملک سے اچھے تعلقات سے کوئی تیسرا ملک ناراض ہو۔
’’میں سمجھتا ہوں کہ اب ماحول ایسا ہے کہ جب کے وہ ایک نئی شروعات کی جا سکتی ہے ۔۔۔ روس کی طرف سے بھی اس بات کی خواہش موجود ہے کہ وہ (پاکستان چین اقتصادی راہداری کے منصوبے) کے فوائد حاصل کرے۔۔۔۔اصل میں جب سیاسی تعلقات ٹھیک ہو جاتے ہیں تو اس کے بعد دفاعی سلسلہ ہو تجارت کا ہو، ترقیاتی ہو وہ پھر سارے راستے آسان ہو جاتے ہیں۔‘‘
واضح رہے کہ امریکہ کی طرف سے حال ہی میں اتحادی اعانتی فنڈ کی مد میں پاکستان کودی جانے والی 30 کروڑ ڈالر کی امدادی رقم روکنے کے علاوہ رواں سال کے اوائل میں پاکستان کو آٹھ ایف 16 لڑاکا طیاروں کی فروخت کی مد میں کروڑوں ڈالر کی زر اعانت نہ دینے جیسے معاملات کے باعث دونوں ملکوں کے تعلقات میں کھنچاو دیکھا گیا ہے۔
تاہم پاکستان کا کہنا ہے کہ امریکہ کے ساتھ تمام شعبوں میں وسیع تعاون باہمی مفاد میں ہے۔ حال ہی پاکستان کے سیکرٹری خارجہ اعزاز احمد چوہدری نے ایک بیان میں دوطرفہ تعلقات میں تناؤ کا باعث بننے والے حالیہ واقعات کا حوالہ دیتے ہوئے کہا تھا کہ غلط فہمیوں کو دور کرنے کے لیے رابطے جاری رکھنا بہت اہم ہے۔