رسائی کے لنکس

'مینیج کیے گئے انتخابات کتنے ہی غیر منظم ہوں، ان کا متبادل مارشل لاء ہوتا ہے'


انتخابات میں مبینہ بے قاعدگی کے الزامات کی تحقیقات کروائی جائیں، تحریک انصاف کے حامیوں نے پشاور اسلام آباد ہائی وے بلاک کئے رکھی۔ بارہ فروری ، فوٹو رائٹرز
انتخابات میں مبینہ بے قاعدگی کے الزامات کی تحقیقات کروائی جائیں، تحریک انصاف کے حامیوں نے پشاور اسلام آباد ہائی وے بلاک کئے رکھی۔ بارہ فروری ، فوٹو رائٹرز

پاکستان میں انتخابات کے انعقاد کے کئی دن بعد بھی اب تک یہ واضح نہیں ہے کہ انتخابات کےنتائج کا کیا مطلب ہے اور آئندہ کیا ہو سکتا ہے۔ ووٹنگ میں جعلسازی کے الزامات اور متنازع بیلٹس کے دوران دونوں نمایاں ترین مد مقابل کامیابی کا دعویٰ کر رہے ہیں ۔کیا کسی غیر مستحکم حکومت کا قیام کیا کسی نئے بحران کو جنم دے سکتا ہے ؟

پاکستان میں آئندہ کون حکومت کرے گا ؟

عائشہ جلال امریکی ریاست میسا چوسٹس کی بوسٹن میں قائم ٹفٹس یونیورسٹی میں تدریس کے فرائض انجام دیتی ہیں۔ پاکستان کے انتخابی نتائج کے حوالے سے بات کرتے ہوئے عائشہ جلال نے کہا کہ اس وقت جو نتائج سامنے ہیں اس کا مطلب یہ ہے کہ کوئی بھی ایک پارٹی خود سے حکومت نہیں بنا سکتی۔ اس لیے وفاقی سطح پر ایک مخلوط حکومت ناگزیر ہے ۔ اور یہ ہی و جہ ہے کہ صورت حال پیچیدہ شکل اختیار کر رہی ہے۔

عائشہ جلال کہتی ہیں کہ پاکستان کی سیاست میں اتحاد غیر معمولی بات نہیں ہے، لیکن انہیں چلانا آسان نہیں ہے۔ وہ کمزور پڑ سکتے ہیں اور ہیرا پھیری کا شکار ہو سکتے ہیں۔

کسی بھی مخلوط حکومت کے لیے ایک ایسی حکومت کو چلانا اس صورت میں اور بھی مشکل ہو سکتا ہے جسے ملک کو آگے بڑھنے اور معیشت کو لاحق سخت بنیادی مسائل سے نجات کے لیے سخت اقتصادی پیکیجز کے ساتھ چلنا ہو گا۔ ان سخت مسائل میں محدود ٹیکس محصولات اور دوسرے ملکوں کے عطیات پر انحصار شامل ہیں۔

الیکشن 2024: نئی حکومت کو کن معاشی چیلنجز کا سامنا ہو گا؟
please wait

No media source currently available

0:00 0:04:01 0:00

ان مسائل سے نمٹنے کے لیے سخت، امکانی طور پر غیر مقبول فیصلے درکار ہوں گے جو اس صورت میں مزید مشکل ہو جائیں گے جب حکومت بٹی ہوئی اور ایک محدود عوامی مینڈیٹ کی حامل ہو ۔

اس صورت حال کے پیش نظر ایک مزید مستحکم اور موثر حکومت کے حصول کے لیے کچھ ہی عرصے بعد ایک دوسرے قومی انتخاب کی ضرورت پیش آ سکتی ہے۔

انتخابات کو مغرب نے ناقص قرار دیا ہے ، کیا یہ مناسب ہے ؟

عائشہ جلال کہتی ہیں کہ پاکستان کے معیار کے مطابق، اصل پولنگ نسبتاً پر امن رہی ۔ الیکشن کے موقع پر شورش کے شکار صوبے بلوچستان میں ایک خوفناک حملہ ہوا جس میں 28 لوگ ہلاک ہوئے۔ لیکن انتخاب کے دن بڑے پیمانے پر تشدد کے خدشات سامنے نہیں آئے۔

اور اس حقیقت کے پیش نظر کہ پی ٹی آئی نے، جو پاکستان کی موجودہ سینیر فوجی قیادت کی حمایت سے محرو م ہے، انتخابات میں اتنی اچھی کار کردگی کا مظاہرہ کیا ہے، یہ ظاہر ہوتا ہے کہ پورے انتخابات میں کوئی واضح دھاندلی نہیں ہوئی ہے۔

کچھ مقامات پر پی ٹی آئی کے ووٹروں کو ہراساں کیا گیا لیکن یہ واضح طور پر ان کے مجموعی ووٹوں میں زبردست مداخلت کرنے کے لیے کافی نہیں تھا۔

'ایک ناقص جمہوریت فوجی حکومت سے بہتر ہوتی ہے'

عائشہ جلال کہتی ہیں کہ پاکستان کی جمہوریت کا مقابلہ امریکہ یا کسی دوسرے ملک کی جمہوریت سے نہیں کیا جا سکتا۔ پاکستانی سیاست پر بیرونی مبصرین کے ساتھ مسئلہ یہ ہے کہ وہ پاکستان کے انتخابات کو ان نظروں سے دیکھتے ہیں جیسا کہ عمومی طور پر دوسرے مقامات پر دیکھا جاتا ہے ۔

لیکن عائشہ جلال کہتی ہیں کہ پاکستان کی سیاست منفرد ہے۔ ملک ایک فوجی غلبے کی ریاست ہے جہاں ایک عرصے سے سیاست اور انتخابات میں فوج شامل رہی ہے ۔ لیکن مینیج کیے گئے انتخابات خواہ کتنے ہی غیر منظم ہوں، ان کا متبادل مارشل لا ء ہے۔ اور ایک ناقص جمہوریت فوجی حکومت سے بہتر ہوتی ہے۔ اس سے بھی بڑھ کر یہ کہ انتخابات بھی نسبتاً پر امن طور پر انجام پائے ہیں۔

انتخابات کے دن سیل فون اور موابائل انٹرنیٹ سروسز کی بندش پر مغرب کی جانب سے بہت زیادہ تنقید ہوئی ہے۔ جو بیرونی مبصرین کو انتخابی عمل میں ناقابل قبول مداخلت دکھائی دے سکتی ہے۔ لیکن پاکستان میں سیل فونز کو دھماکوں میں استعمال کیے جانے کا حقیقی خدشہ موجود تھا۔

کیا کوئی انتخابی نتائج سے خوش ہو گا؟

اگرچہ پی ٹی آئی کی نمایاں کارکردگی اسٹیبلشمنبٹ مخالف،اور خاص طور پر فوج مخالف ووٹ کی عکاس ہے ۔۔۔ تاہم منقسم قومی مینڈیٹ کا مطلب ہے کہ فوج کی ہائی کمان کے پاس نتائج سے مطمئن ہونےکا جواز موجود ہے۔

ایک منقسم قومی اسمبلی اور ایک کمزور حکومت فوج کے ہاتھوں میں کھیلتی ہے۔ اگر پی ایم ایل این مخلوط حکومت میں ایک بڑی پارٹی کے طور پر حکومت کرتی ہے تو وہ نسبتاً ایک کمزور پوزیشن میں ہو گی اور اسے فوج کی حمایت کی ضرورت ہو گی خاص طور پر اگر پی ٹی آئی انتخابات کے نتائج کے خلاف بڑے پیمانے پر مظاہروں میں مصروف رہتی ہے ۔

انتخابات کے اثرات

عائشہ جلال کہتی ہیں کہ ان انتخابات کا ایک مثبت پہلو یہ ہے کہ اب تک لوگوں کی حمایت حاصل کرنے کا عمل جاری رکھنے کی اجازت دی گئی ہے۔ لیکن بیشتر کے نزدیک اس کے منفی اثرات مثبت اثرات سے زیادہ ہیں۔ اور 2024 کے انتخابات کو ہیرا پھیری اور کنٹرول کے اعتبار سے 2018 کے انتخابات سے اگر زیادہ نہیں تو اس کے برابر ضرور سمجھا جا رہاہے ۔

اس بار ووٹ ڈالنے والوں کی شرح لگ بھگ 48 فیصد رہی جو 2018 کے مقابلے میں کم ہے جو اس وقت 51 فیصد تھی۔ نوجونوں نے ایک اہم کردا ر ادا کیا۔ 44 فیصد ووٹرز 35 سال سے کم عمر کے تھے۔ اور خواتین نے بھی ووٹنگ میں ایک زیادہ بڑا کردار ادا کیا۔ زیادہ خواتین نے انتخابات میں حصہ لیا اور نشستیں جیتیں بھی۔

پرانے حربے ناکام مگرنئی غیر یقینی کا امکان

جماعتی سیاست سے قطع نظر، نتائج سے ظاہر ہوتا ہے کہ ووٹروں کو ہراساں کرنے اور دبانے کے پرانے حربے زیادہ تر کار گر نہیں رہے۔

یہ توقع کہ عمران خان کے خلاف انتخابات سے صرف چند ہفتے قبل قانونی فیصلے اور ان کی مسلسل قید سے ان کی مقبولیت ختم ہو سکتی ہے اور اس کا مطلب یہ ہو گا کہ پی ٹی آئی کے حامی گھروں میں رہیں گے، ایسا واضح طور پر نہیں ہوا۔

لیکن اس سے ممکنہ طور پر صرف پاکستان کی سیاسی بے یقینی جاری رکھنے میں مدد ملی ہے کیوں کہ وہ اب ایک نئے غیر یقینی دور میں داخل ہو گیا ہے۔

لیکن کیا سب سے زیادہ نشستیں حاصل کرنے والی پی ٹی آئی، کسی مخلوط حکومت کی قیادت کرنے کے لیے سب سے آگے ہے ؟

پاکستان تحریک انصاف پشاور میں ریٹرننگ آفیسر کے دفتر کے باہر ایک مظاہرے کے دوران ۔ فوٹو اے ایف پی 9 فروری 2024
پاکستان تحریک انصاف پشاور میں ریٹرننگ آفیسر کے دفتر کے باہر ایک مظاہرے کے دوران ۔ فوٹو اے ایف پی 9 فروری 2024

عائشہ جلال نے کہا کہ تحریک انصاف، یا پی ٹی آئی کے لگ بھگ 93 امیدواروں نے آزاد امیدوارو ں کے طور پر نشستیں جیتی ہیں۔ انہوں نے سپریم کورٹ کے ایک تین رکنی بنچ کی جانب سے ان کی جماعت پر آئین کے مطابق پارٹی کے اندر انتخابات کرانے میں ناکامی کی وجہ سے اپنے انتخابی نشان کرکٹ کے بلے کے استعمال پر پابندی عائد ہونے کے بعد آزاد حیثیت میں انتخاب لڑنے کا فیصلہ کیا ۔

عائشہ جلال کے بقول، پی ٹی آئی نے واضح کر دیا ہے کہ وہ خود اپنے طور پر حکومت بنانا چاہتی ہے اور اس کا خیال ہے کہ اس کا مینڈیٹ چرا لیا گیا ہے۔

انتخابات کے حتمی نتائج کا پتہ چلنے سے پہلے ہی پی ٹی آئی نے دعویٰ کیا تھا کہ اس نے 170 یا اس سے زیادہ نشستیں جیت لی ہیں،جو اتنی کافی ہیں کہ وہ اپنی حکومت تشکیل دے سکتی ہے۔ لیکن عائشہ جلال کہتی ہیں کہ اس کے بظاہر کوئی ثبوت موجود نہیں ہیں۔

پی ٹی آئی کے پاس حکومت سازی کےلیے ووٹوں کی کمی

عائشہ جلال کے بقول، پی ٹی آئی کے اس دعوے سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ یہ قبول کرنے کو تیار نہیں ہے کہ اس نے خود سے ایک حکومت کی تشکیل کے لیے درکار ووٹ نہیں جیتے ہیں۔ اس نے اس کی بجائے یہ دعویٰ کرتے ہوئے نتائج کو چیلنج کر دیا ہے کہ اس کے ووٹوں کو غیر قانونی طور پر بلاک کیا گیا ہے، اور اس نے پہلے ہی 18 آئینی حلقوں میں باضابطہ شکایات درج کرا دی ہیں۔

لیکن پارلیمنٹ میں کل 265 نشستوں میں سے پی ٹی آئی کی جیتی ہوئی 93 نشستوں کا مطلب ہے کہ اس کے پاس اب بھی خود اپنی حکومت کی تشکیل کے لیے درکار نشستوں کی کافی کمی ہے۔

پاکستان مسلم لیگ نواز گروپ، پی ایم ایل این

پاکستان مسلم لیگ نون کے حامی صوبے خیبر پختونخواہ میں ایک ریلی کے دوران ، 22 جنوری 2024
پاکستان مسلم لیگ نون کے حامی صوبے خیبر پختونخواہ میں ایک ریلی کے دوران ، 22 جنوری 2024

پاکستان مسلم لیگ نواز یا پی ایم ایل این، 78 نشستوں کے ساتھ دوسرے نمبر پر ہے ۔ اس کی نشستوں کی تعداد امکانی طور پر پی ایم ایل این کے ساتھ منسلک پارلیمنٹ کے آزاد ارکان کے اضافے سے بڑ ھ سکتی ہے۔

پی ایل ایم این ،شہباز شریف کی زیر قیادت وہ جماعت ہے جس نے 2022 میں وزیر اعظم کا منصب سنبھالا تھا اور ان کے بھائی، سابق وزیر اعظم نواز شریف کے بارے میں خیال کیا گیا ہے کہ انہیں پاکستان کی طاقتور فوج کی حمایت حاصل ہے لیکن ان کی جماعت نے انتخابات میں توقع کے مطابق کارکردگی نہیں دکھائی۔ اس کے پاس بھی خود سے حکومت کی تشکیل کے لیے درکار ووٹوں کی کمی ہے اور وہ بھی خود سے کوئی حکومت تشکیل نہیں دے سکتی۔

پاکستان پیپلز پارٹی ، پی پی پی

پاکستان پیپلز پارٹی کے حامی ایک انتخابی مہم کے دوران، فوٹو رائٹرز 21 جنوری 2024
پاکستان پیپلز پارٹی کے حامی ایک انتخابی مہم کے دوران، فوٹو رائٹرز 21 جنوری 2024

انتخابات میں 54 نشستیں حاصل کر کے تیسرے نمبر پر رہنے والی جماعت پاکستان پیپلز پارٹی ہے۔ طاہر ہے اس کے پاس بھی خود سے حکومت کی تشکیل کے لیے درکار نشستیں نہیں ہیں۔ لیکن اپنی اس تیسری پوزیشن کی وجہ سے اسے وفاقی سطح پر کوئی مخلوط حکومت بنانے میں کسی دوسری پارٹی کو مدد کرنے کا موقع دستیاب ہو گیا ہے ۔

پی ایم ایل این کی زیر قیادت مخلوط حکومت کا امکان

عائشہ جلال نے کہا کہ ، میرا خیال ہے کہ زیادہ امکان یہ ہی ہے کہ پی ایم ایل این کی زیر قیادت دوسری پارٹیوں کے درمیان اتحاد تشکیل ہو گا ۔ لیکن سوال یہ ہے کہ آیا اس سے وہ ووٹرز مطمئن ہوں گے جنہوں نے پی ٹی آئی کو پارلیمنٹ کی سب سے بڑی پارٹی کےطور پر ووٹ دیے ہیں۔

ایسو سی ایٹڈ پریس کی یہ رپورٹ بوسٹن کی ٹفٹس یونیورسٹی میں پاکستان کی تاریخ کی ایک ماہر عائشہ جلال کی ماہرین کے ساتھ گفتگو پر مبنی ہے ۔

فورم

XS
SM
MD
LG