سانحہ آرمی پبلک اسکول کے متاثرین اور دہشت گردی کے واقعات میں ہلاک ہونے والے سیاسی رہنماؤں کے اہلِ خانہ نے حکومت اور کالعدم تحریکِ طالبان (ٹی ٹی پی) کے درمیان جنگ بندی معاہدے پر تحفظات کا اظہار کیا ہے۔
متاثرہ افراد کا کہنا ہے کہ حکومت کو کسی نے یہ اختیار نہیں دیا کہ وہ اُنہیں اعتماد میں لیے بغیر اُن کے پیاروں کے قاتلوں سے معاہدے کرے یا اُنہیں معاف کر دے۔
لواحقین کی تنظیم کے صدر فضل خان ایڈوکیٹ کا کہنا ہے کہ یہ معاہدہ ان شہدا کے خون سے غداری کے مترادف ہے جنہوں نے گزشتہ 15 برسوں کے دوران اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کیا۔
خیال رہے کہ 16 دسمبر 2014 کو پشاور کے آرمی پبلک اسکول میں دہشت گردوں کے حملے میں 132 بچوں سمیت 140 سے زائد افراد ہلاک ہو گئے تھے۔
کالعدم تحریکِ طالبان نے اس حملے کی ذمے داری قبول کی تھی۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے فضل خان ایڈوکیٹ کا کہنا تھا کہ وہ اور ان کے ساتھی اس معاہدے کی ہر پلیٹ فارم پر مزاحمت کریں گے۔
پاکستان کے وفاقی وزیرِ اطلاعات فواد چوہدری نے پیر کو تصدیق کی تھی کہ کالعدم تحریکِ طالبان اور حکومت کے درمیان جاری مذاکرات کے دوران فریق جنگ بندی پر اتفاق کر چکے ہیں۔
سانحہ آرمی پبلک اسکول کے متاثرین اور دیگر کو یہ خدشہ ہے کہ کہیں حکومت معاہدے کے تحت ٹی ٹی پی کا عام معافی نہ دے دے۔
فضل خان ایڈوکیٹ پچھلے دو برسوں سے لندن میں مقیم ہیں۔ لندن منتقلی سے قبل اُن کے بقول اُن پر قاتلانہ حملے کی کوشش بھی ہو چکی ہے۔
اے پی ایس سانحے میں ہلاک ہونے والے بچے عزیر ظہور کے والد ظہور احمد نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ اے پی ایس سانحے کے متاثرین نے اس معاہدے کو یکسر مسترد کیا ہے۔
اُن کا کہنا تھا کہ وہ شروع دن سے ہی تحریکِ طالبان کے ساتھ مفاہمت کے خلاف ہیں۔ کیونکہ ٹی ٹی پی نہ صرف ان کے بچوں بلکہ 70 ہزار پاکستانیوں کے ناحق خون کی ذمے دار ہے۔ لہذٰا یہ کسی معافی کے حق دار نہیں ہیں۔
'معاہدے کو پارلیمان میں لایا جانا چاہیے تھا'
پاکستان کے صوبے خیبر پختونخوا میں حزبِ اختلاف کی جماعت عوامی نیشنل پارٹی (اے این پی) کی سیکرٹری اطلاعات ثمر ہارون بلور بھی اس معاہدے سے اتفاق ہیں کرتیں۔
تمر ہارون کے شوہر ہارون بلور 2018 کے عام انتخابات سے قبل 12 جولائی کو ایک انتخابی جلسے کے دوران خود کش حملے میں ہلاک ہو گئے تھے۔ جب کہ اُن کے والد اور ثمر ہارون کے سسر بشیر بلور بھی جنوری 2013 کو پشاور میں ایک خود کش حملے میں مارے گئے تھے۔
دونوں واقعات کی ذمے داری کالعدم تحریک طالبان پر عائد کی گئی تھی۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے ثمر ہارون بلور کا کہنا ہے کہ ٹی ٹی پی کے ساتھ مذاکرات سے قبل ان کے ساتھ یا دیگر سیاسی جماعتوں کے ساتھ کسی قسم کی مشاورت نہیں ہوئی ہے اسی وجہ سے وہ اس معاہدے کو نہیں مانتے۔
ثمر ہارون بلور کا کہنا تھا کہ پارلیمان میں تمام سیاسی جماعتوں کی نمائندگی موجود ہے لہذا اس قسم کے معاہدے پر دستخط کرنے سے قبل پارلیمان کو اعتماد میں لینا چاہیے۔
آئندہ کے لائحہ عمل کے بارے میں ثمر بلور نے کہا کہ اس سلسلے میں ان کی جماعت نہ صرف آپس میں بلکہ دیگر سیاسی جماعتوں کے ساتھ مشاورت کر کے اس معاہدے کے خلاف لائحہ عمل مرتب کرے گی۔
خود کش حملہ روکنے والے اعتزاز کے والد کا وزیرِ اعظم کے نام خط
خیبر پختونخوا کے جنوبی شہر ہنگو کے ایک اسکول میں خود کش حملہ آور کو روکنے کی کوشش میں جان کی بازی ہارنے والے اعتزاز کے والد مجتبیٰ حسن نے وزیرِ اعظم عمران خان کے نام لکھے گئے خط میں تحریکِ طالبان کے ساتھ مذاکرات پر تحفظات کا اظہار کیا ہے۔
پندرہ سالہ اعتزاز حسن نے چھ جنوری 2014 کو اس وقت ایک خود کش حملہ آور کو دبوچ لیا تھا جب وہ اس کے اسکول پر خود کش حملے کے لیے آگے بڑھ رہا تھا۔ خود کش حملہ آور سے ہاتھا پائی کے دوران خود کش جیکٹ پھٹنے سے اعتزاز حسن ہلاک ہو گیا تھا۔
اعتزاز کے والد کی جانب سے لکھے گئے خط میں کہا گیا ہے کہ تحریکِ طالبان کے ساتھ معاہدے کا سب سے زیادہ دکھ ان والدین کو ہوا ہے جن کے معصوم بچے آرمی پبلک اسکول میں بے رحمی سے قتل ہوئے تھے یا جامعات پر دہشت گردوں کے حملوں میں مارے گئے تھے۔
اُن کے بقول یہ معاہدہ مساجد، امام بارگاہوں، بازاروں اور دیگر مقامات پر دھماکوں میں مارے جانے والوں کے زخموں پر نمک چھڑکنے کے مترادف ہے۔
خط میں کہا گیا ہے کہ اگر 70 ہزار پاکستانیوں کا خون بہانے والے ان دہشت گردوں کو معافی دی جا سکتی ہے تو پھر پاکستانی جیلوں میں قید تمام مجرموں کو رہا کیا جائے۔
حکومت کا مؤقف
منگل کو وفاقی کابینہ کے اجلاس کے بعد نیوز کانفرنس کرتے ہوئے پاکستان کے وزیرِ اطلاعات فواد چوہدری نے ٹی ٹی پی کے ساتھ معاہدے کا دفاع کیا ہے۔
اُن کا کہنا تھا کہ تحریکِ طالبان کے ساتھ مذاکرات پاکستان کے آئین کے تحت ہو رہے ہیں۔
فواد چوہدری کا کہنا تھا کہ جو گروپس بھی پاکستانی حکومت کے ساتھ مذاکرات کریں گے انہیں پاکستان کے آئین کو تسلیم کرنا ہو گا۔
اُن کا کہنا تھا کہ ٹی ٹی پی میں بھی مختلف گروپس ہیں اور کچھ لوگ مختلف وجوہات کی بنا پر ان میں شامل ہوئے ہیں۔ لیکن یہ سب پاکستانی ہیں اور اسی لیے حکومت اپنے شہریوں کو ایک موقع دے رہی ہے کہ وہ تشدد چھوڑ دیں۔
تحریکِ طالبان کے قیدیوں کی رہائی سے متعلق ایک سوال پر انہوں نے کہا کہ ابھی صرف سیز فائر کی بات ہوئی ہے اس کے بعد دیکھیں گے کہ بات چیت کیسے چلتی ہے اور کیا کیا اقدامات کیے جا سکتے ہیں۔