پاکستان کی وفاقی کابینہ نے فوری طور پر افغانستان کے لیے گندم اور چاول بھجوانے اور امداد کے لیے مسلم ممالک سے اپیل کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔
وفاقی وزیراطلاعات و نشریات فواد چوہدری نے اسلام آباد میں کابینہ اجلاس کے بارے میں بریفنگ دیتے ہوئے بتایا کہ اجلاس میں افغانستان کی موجودہ صورتِ حال پر بات چیت کی گئی ہے۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان سمجھتا ہے کہ افغانستان میں انسانی المیہ جنم لے سکتا ہے۔ اس لیے حکومتِ پاکستان نے فوری طور پر افغانستان کو گندم اور چاول بھیجنے کی منظوری دے دی ہے۔
فواد چوہدری نے کہا کہ افغانستان میں خوراک کے لیے اس وقت چھوٹی بچیوں کو فروخت کیے جانے کی افسوس ناک خبریں آ رہی ہیں۔ افغانستان میں خاص طور پر بچے متاثر ہو رہے ہیں جس کے لیے کابینہ نے فیصلہ کیا ہے کہ مسلم ممالک سے افغانستان کی مدد کے لیے اپیل کی جائے گی۔
علاوہ ازیں وزیرِ اطلاعات نے ایک خصوصی فنڈ قائم کرنے کا بھی اعلان کیا جس کے ذریعے پاکستانی عوام افغان عوام کی مدد کے لیے عطیات جمع کرا سکیں گے۔
فواد چوہدری نے کہا کہ افغانستان کے ساتھ تجارت کے لیے سوائے سیب کی درآمد کے دیگر تمام ٹیکسز ختم کر دیے گئے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ہم نے افغان حکام پر زور دیا ہے کہ وہ تمام فریقوں پر مشتمل حکومت بنائیں لیکن اس کے ساتھ ساتھ ہم بین الاقوامی برادری سے بھی کہیں گے کہ افغان حکومت کا نہ سہی لیکن افغان عوام کا ساتھ تو دیں۔
ان کا کہنا تھا کہ پاکستان افغان حکومت کو تسلیم نہیں کر رہا لیکن سیاست کے علاوہ لوگوں کی مدد ضروری ہے۔ وہاں نہتی عورتوں اور بچوں کا کوئی قصور نہیں اس لیے انسانی امداد جانا ضروری ہے۔
وزیرِ اطلاعات نے بتایا کہ طالبان حکومت کے وزیرِ خارجہ بدھ کو پاکستان کے دورہ پر آ رہے ہیں جس میں اہم امور پر بات چیت کی جائے گی۔
واضح رہے کہ افغانستان میں طالبان کی حکومت کو تاحال پاکستان نے تسلیم نہیں کیا۔ لیکن طالبان کے وزیرِ خارجہ پاکستان کے سرکاری دورے پر آ رہے ہیں اور پاکستان میں افغانستان کے سفارت خانے نے معمول کے مطابق کام کرنا شروع کر دیا ہے۔
’ٹی ٹی پی سے منسلک پاکستانیوں کے لیے موقع‘
فواد چوہدری کاکہنا تھا کہ ٹی ٹی پی کے ساتھ مذاکرات پاکستان کے آئین کے تحت ہو رہے ہیں۔ جو گروپس بھی پاکستان حکومت کے ساتھ مذاکرات کریں گے انہیں پاکستان کے آئین کو تسلیم کرنا ہو گا۔
انہوں نے کہا کہ ہم سمجھتے ہیں کہ ٹی ٹی پی میں مختلف گروپس ہیں جو مختلف وجوہات کی بنا پر وجود میں آئے اور ان میں شامل افراد مختلف اسباب کی بنا پر ان کے ساتھ شامل ہوئے لیکن یہ سب پاکستانی ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ پاکستان کی حکومت اپنے شہریوں کو واپس آنے کا ایک موقع دے رہی ہے۔
انہوں نے کہا کہ جنگیں ہمیشہ کے لیے جاری نہیں رکھی جا سکتیں، انہیں ختم کرنا ہوتا ہے۔ ٹی ٹی پی کے ساتھ مذاکرات میں افغانستان میں قائم طالبان حکومت نے کردار ادا کیا ہے اور وہ اس سلسلے میں مدد کرنا چاہ رہے ہیں۔
ٹی ٹی پی کے قیدیوں کی رہائی سے متعلق ایک سوال پر وزیرِ اطلاعات نے کہا کہ ابھی صرف سیز فائر کی بات ہوئی ہے اس کے بعد دیکھیں گے کہ بات چیت کیسے چلتی ہے اور کیا کیا اقدامات کیے جا سکتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ان مذاکرات میں مقامی لوگوں کو بھی شامل کیا جا رہا ہے اور وہ بھی ان مذاکرات کا حصہ ہوں گے۔
ان کا کہنا تھا کہ اس جنگ کے آغاز سے اب تک ایک پوری نسل بدل گئی ہے۔ بہت سے افراد ایسے ہیں جن کے والد یا بھائی اس جنگ میں بطور طالبان شریک تھے لیکن ان کا اس جنگ سے تعلق نہیں تھا۔ اس لیے جو لوگ ہمارے آئین اور قانون کو مانیں گے ہم انہیں ایک موقع دینا چاہتے ہیں۔
گیس کی قیمتوں میں اضافہ
فواد چوہدری نے نیوز کانفرنس میں بتایا کہ بعض برآمدات کرنے والی صنعتوں کے لیے گیس کے نرخوں میں آئندہ تین ماہ کے لیے اضافہ کیا گیا ہے۔ یہ وہ اضافہ ہے جو اس سے قبل انہیں سبسڈی کی صورت میں دیا جا رہا تھا لیکن اس سے نقصان یہ ہوا کہ بعض صنعتوں نے اس گیس کی مدد سے بجلی بنانا شروع کر دی۔
انہوں نے کہا کہ ملک میں اس وقت اضافی بجلی ہے اس لیے آئندہ تین ماہ کے لیے ان صنعتوں کے لیے گیس ٹیرف میں اضافہ کیا گیا ہے اور مارچ میں صورتِ حال معمول پر آنے کے بعد اس کا جائزہ لیا جائے گا۔
فواد چوہدری کا کہنا تھا کہ گیس مارکیٹ میں ہم عالمی سطح سے جڑے ہیں۔ ہر چیز پر سبسڈی نہیں دی جا سکتی۔ اس اضافے کا گھریلو صارفین سے کوئی تعلق نہیں۔ گھریلو استعمال کی گیس کی قیمت میں کوئی اضافہ نہیں کیا گیا ہے۔
’چینی 90 سے 100 روپے کلو‘
مہنگائی کےبارے میں ایک سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ پاکستان کا میڈیا ہر چیز کی قیمت کو تین گنا کر کے دکھا رہا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ایپ کے ذریعے چینی 90 سے 100 روپے کلو مل رہی ہے لیکن میڈیا پر لگاتار آ رہا ہے کہ چینی 150 روپے کلو ہے۔ اس معاملے کو دیکھنا بھی ضروری ہے۔