پاکستان کے صوبے بلوچستان کے ضلع پنجگور سے ملنے والی ایرانی سرحد کو حکام نے بند کر دیا ہے۔ سرحد کی بندش کی وجہ ایران کے صوبے سیستان میں کشیدہ صورتِ حال بتائی جاتی ہے۔
پنجگور حکام نے منگل کو جاری ایک بیان میں ایرانی تیل کا کاروبار کرنے والی کاروباری شخصیات اور ڈرائیوروں کو ہدایت کی ہے کہ وہ ایران سے ملنے والی سرحد پر جانے سے گریز کریں۔
بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ ایران کے سرحدی علاقے میں فائرنگ کے واقعے کے بعد پیدا ہونے والی کشیدہ صورتِ حال کی وجہ سے سرحد بند کی جا رہی ہے۔
یاد رہے کہ پیر کو ایرانی فورسز نے پاکستان سے متصل سرحد پر تیل کی اسمگلنگ کرنے والے ایرانی باشندوں پر اُس وقت فائرنگ کی تھی جب وہ رکاوٹوں کو ہٹا کر راستہ کھولنے کی کوشش کر رہے تھے۔
پنجگور حکام کے مطابق ایرانی فورسز کی فائرنگ سے ایک پاکستانی شہری بہادر خان بھی زخمی ہونے والوں میں شامل ہے جسے ضلعی اسپتال میں طبی امداد دی جا رہی ہے۔
واضح رہے کہ پاکستان اور ایران کے درمیان 959 کلو میٹر طویل سرحد ہے۔ بلوچستان کے سرحدی اضلاع چاغی، واشک، پنجگور، کیچ، تربت اور گودار شامل ہیں جو کہ ایران کی اشیا کی ایک بڑی مارکیٹ ہیں۔
دونوں ملکوں کے سرحدی علاقوں کے مکینوں کے روزگار کا ایک بڑا ذریعہ تیل کی اسمگلنگ ہے جو ایک پرخطر کام ہے۔ ایرانی باشندے تیل سرحد پر لاتے ہیں جہاں پاکستانی باشندے اسے خرید کر اپنے ملک میں فروخت کرتے ہیں۔
فورسز کی فائرنگ کے واقعے کے خلاف ایران کے سرحدی شہر سراوان میں حالات بدستور کشیدہ ہیں۔ مظاہرین نے سرکاری گاڑیوں کو نذر آتش بھی کیا جب کہ متعدد افراد نے منگل کو میئر کے دفتر کا گھیراؤ کرنے کے بعد وہاں توڑ پھوڑ بھی کی۔
سراوان میں کشیدگی کی کئی ویڈیوز سوشل میڈیا پر بھی وائرل ہیں۔
وائس آف امریکہ کی اردو سروس کے مطابق ایرانی فورسز کے ساتھ مظاہرین کے تصادم اور فائرنگ میں ہلاکتوں کی اصل تعداد کے بارے میں تصدیق نہیں ہوسکی۔ تاہم بعض ذرائع یہ تعداد 17 بتاتے ہیں لیکن کسی آزاد ذرائع سے اس کی تصدیق نہیں ہوئی۔
بدھ کو سوشل میڈیا پر ایک اور ویڈیو جاری ہوئی ہے جس میں ہلاک افراد کی نماز جنازہ ادا کرتے دیکھا سکتا ہے۔
واضح رہے کہ سیستان بلوچستان ایران کے بلوچی لوگوں کا اکثریتی صوبہ ہے۔ جہاں کے مکینوں کے روزگار کا واحد ذریعہ تیل کی اسمگلنگ ہے۔