کراچی اور لاہور میں گزشتہ روز چہلم کے موقع پر ہونے والے خودکش حملوں کے بعد نو یا دس روز بعد آنے والے عزاداری کے ایام ،چپ تعزئیے اور 12 ربیع الاول کو عید میلادالنبی کے جلوسوں کی سیکورٹی کے حوالے سے نئے خدشات ابھر رہے ہیں اور سیکورٹی اداروں کی ذمے داریوں پر کئی سوالات کھڑے ہوگئے ہیں۔
اگر چہ صوبائی وزیر داخلہ ڈاکٹر ذوالفقار علی مرزا کی جانب سے ہدایات جاری کردی گئی ہیں کہ پولیس اور رینجرز 8 ربیع الاول تک عزا داری کے ایام اور چپ تعزیئے کے جلوسوں کے مواقعوں پر ہائی الرٹ رہتے ہوئے سیکورٹی کے مربوط اقدامات کو یقینی بنائے مگر گزشتہ روز بھی سیکورٹی کے سخت اقدامات کے دعوے کئے گئے تھے لہذاآنے والے دنوں میں قیام امن سیکورٹی اداروں کے لئے چیلنج بن گیا ہے۔
سندھ کے وزیر داخلہ ڈاکٹر ذوالفقار مرزا نے موقع کی نزاکت کو بھانپتے ہوئے آج ہی سیکورٹی اداروں کو نئی ہدایات جاری کیں ہیں جن کے مطابق چپ تعزئیے اور 12 ربیع الاول کو عید میلادالنبی کے موقع پر برآمد ہونے والے چھوٹے بڑے جلوسوں اور مجالس کی سیکورٹی کے لئے ڈسٹرکٹ، ٹاؤنز کی سطح پر اہل تشیع علمائے کرام اور منتظمین سے باقاعدہ روابط پر خصوصی توجہ دی جائے گی۔
بدھ کو جاری کردہ اعلامیہ کے مطابق انہوں نے مزید ہدایات میں کہا ہے کہ 12 ربیع الاول جشن عیدمیلاد النبیﷺ کے موقع پر غیر معمولی سیکورٹی اقدامات پر مشتمل جامع منصوبہ ترتیب دیا جائے اور اس ضمن میں فوری بنیادوں پر مشترکہ اجلاس کو یقینی بنایا جائے جبکہ اس دن کی مناسبت سے منعقدہ نعتیہ محافل، اجتماعات، وعظ اور برآمد ہونے والے مرکزی جلوسوں کی حفاظت کے لئے اہل سنت و الجماعت کے علمائے کرام سے باقاعدہ ڈسٹرکٹ، ٹاؤنز کے لحاظ سے اجلاس کے لئے تمام ضروری اقدامات کئے جائیں۔
ڈاکٹر ذوالفقار علی مرزا نے آئی جی سندھ کو ہدایات دیں کہ کراچی، حیدرآباد اور سکھر ریجنز کی سطح پر جامع کنٹی جنسی منصوبے ترتیب دیئے جائیں جس کے تحت تھانوں کی مجموعی سیکورٹی فرائض کا احاطہ کر کے انہیں اپنی اپنی حدود میں مساجد، مدارس، امام بارگاہوں اور ممکنہ حساس مقامات پر پولیس ڈپلائمنٹ و سیکورٹی، روزانہ کی بنیاد پر رینڈم اسنیپ چیکنگ اور تفصیلات کی رپورٹ اور تمام پبلک مقامات پر شہریوں کی حفاظت کا پابند بنایا جائے۔