سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے انسانی حقوق کے اجلاس میں کمیٹی کے چیرمن مصطفیٰ نواز کھوکھر نے کہا ہے کہ ’’ہم عالمی فورم پر جا کر جھوٹ بولتے ہیں کہ اقلیتوں کے حقوق کے لیے حکومت پاکستان کوشاں ہے‘‘؛ اور یہ کہ ’’سانحہ گوجرہ اور جوزف کالونی کے واقعے کو کئی سال گزر چکے ان کے نتائج ہمارے سامنے ہیں‘‘۔
اُنھوں نے کہا کہ ’’سانحہ گوجرہ میں آٹھ مسیحی مارے گئے، جوزف کالونی کے واقعے کے جوابات آچکے، سانحہ گوجرہ میں ملوث ملزمان رہا ہو چکے۔ ہمارا عدالتی نظام، پولیس سسٹم پر ایسے سولات اٹھاتا ہے کہ ہمارے پاس شرمندگی کے سوا کچھ نہیں۔‘‘
اجلاس میں سانحہ گوجرہ پر بریفنگ دیتے ہوئے، ڈی ایس پی گوجرہ نے کمیٹی کو بتایا کہ مدعی مقدمہ بیرون ملک چلا گیا ہے۔ پانچ گواہان بھی ملک سے چلے گئے مدعی اور گواہان کے نہ ہونے کے باعث کیس داخل دفتر کر دیا گیا۔
انہوں نے کہا کہ ’’مدعی مرضی سے بیرون ملک گیا جب واپس آئے گا تو کیس دوبارہ کھل جائے گا۔ اس سانحے میں ایک مسلمان چھ مسیحی مارے گئے، دو ملزمان گرفتار ہوئےجن میں سے ایک ملزم بے گناہ تھا جو بری ہوگیا، جبکہ 26 نامعلوم ملزمان تھے۔‘‘
چئیرمن کمیٹی مصطفیٰ نواز کھوکھر کا کہنا تھا کہ سانحہ گوجرہ اور جوزف کالونی کے واقعے کو کئی سال گزر چکے ملزمان کو گرفتار کر کے کیفر کردار تک پہنچانے کے دعوے ہوئے، لیکن نتائج اپ کے سامنے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ سانحہ گوجرہ میں ملوث ملزمان رہا ہو چکے ہیں ہمارا عدالتی نظام، پولیس سسٹم پر ایسے سولات اٹھاتا ہے کہ ہمارے پاس شرمندگی کے سوا کچھ نہیں۔
اجلاس میں منظور پشتین سے متعلق اشتہارات کے معاملے پر چیرمن کمیٹی کا کہنا تھا کہ محرم الحرام میں احتیاطی تدابیر سے متعلق ایک اشتہار جاری کیا گیا، اشتہار میں منظور پشتین کو بھی منفی طور پر پیش کیا گیا۔
اس حوالے سے ڈی جی پی آر پنجاب نے کمیٹی کو بتایا کہ منظور پشتین سے متعلق اشتہار پنجاب حکومت کی جانب جاری کیا گیا تھا، اشتہار کے لئے وڈیو ایک ایڈ ایجنسی نے بنا کر دی۔ منظور پشتین سے متعلق اشتہار میں پنجاب حکومت کا کوئی ادارہ ملوث نہیں، اشتہار سے متعلق معاملے کی تحقیقات بھی کی گئی اور متعلقہ ایڈ ایجنسی کو بلیک لسٹ کرکے ڈائریکٹر کوآرڈینیشن کو بھی عہدے سے ہٹا دیا گیا۔
سنیٹر فرحت اللہ بابر کا کہنا تھا کہ محکمہ داخلہ کی جانب سے ایڈ ایجنسی کو اشتہار سے متعلق لکھا گیا خط منگوایا جائے اشتہار سے متعلق انکوائری کمیٹی کے ٹی او آرز کمیٹی میں پیش کئے جائیں۔
اجلاس میں سینیٹر عثمان کاکڑ نے کہا کہ ہماری نظر میں سب انسان برابر ہیں، اسٹیٹ کے اداروں میں سب انسان برابر نہیں، اسٹیٹ کے اداروں میں خرابی ہے ان کو دور کرنے کی ضرورت ہے۔
انہوں نے کہا کہ ہمارے سکول کا نصاب، نسلی امتیاز، دہشت گردی اور انتہاء پسندی کو پروموٹ کر رہے ہیں، ہمارے ملک میں اقلیت بہت کمزور ہے، اگر کسی کی زمین کاروبار اور لڑکی کو اٹھانا ہو تو اقلیت کا سب سے آسان ہے۔ انہوں نے انٹیلی جنس اداروں پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ انٹیلی جنس والے جو اپنے اپ کو بہت سمجھ دار سمجھتے ہیں آکر ہم سے مباحثہ کر لیں۔
عوام کے درمیان ریاستی اداروں کی طرف سے فرقہ واریت پیدا کی جا رہی ہے۔ مسائل کے حل کے لیے نصاب کو تبدیل کرنے کی ضرورت ہے۔ عدلیہ کے کچھ لوگ جس کی مرضی ہو آدھی رات کو فیصلہ سنا دیتے ہیں۔ پیشی لگا دیتے ہیںِ، عثمان کاکڑ نے کہا کہ ملک میںُ 35 انٹیلجنس ادارے ہیں اور وہ اگر چاہیں تو گندے پانی سے سوئی نکال لیتے ہیں۔
اجلاس میں سیالکوٹ میں احمدی عبادت گاہ کے حوالے سے بھی رپورٹ پیش کی گئی جس میں پولیس کے مطابق قادیانوں نے ایک عمارت پر دوسری منزل بنانا چاہی، قادیانیوں نے کہا کہ یہ ان کے لئے ایک مقدس جگہ ہے، انتظامیہ کی جانب سے دو منزلہ عمارت بنانے پر نوٹس جاری کیا گیا اور نوٹس کے بعد عمارت کو سیل کر کے تعمیرات کا کام روک دیا گیا۔ ٹی ایم اے کا عملہ عمارت گرانے کے لئے وہاں پہنچا تو معاملہ بگڑ گیا۔ پولیس نے بتایا کہ ایف آئی آر ڈی سیل کردی ہے، جلد گرفتاریاں بھی عمل میں لائی جائیں گی۔