پاکستان نے پاک، افغان ٹرانزٹ ٹریڈ کے مبینہ غلط استعمال کے معاملے پر ایک بار پھر اپنی تشویش کا اظہار کیا ہے۔
پاکستان کی جانب سے اس تشویش کا اظہار ایسے وقت میں کیا گیا ہے جب افغانستان میں طالبان حکومت کے وزیرِ تجارت نور الدین عزیز نے دورۂ پاکستان کے دوران اعلٰی حکام سے ملاقاتیں کی ہیں۔
پاکستانی وزارتِ خارجہ کی ترجمان ممتاز زہرا بلوچ کا جمعرات کو معمول کی بریفنگ کے دوران کہنا تھا کہ پاکستان ٹرانزٹ ٹریڈ کو آسان بنانے کے طریقے تلاش کرتا رہے گا۔ لیکن ٹرانزٹ ٹریڈ کا غلط استعمال کیا جا رہا ہے اور پاکستان کو اس بارے میں تحفظات ہیں۔
پاکستان نے کراچی بندرگاہ کے راستے افغانستان جانے والے سامان پر کچھ پابندیاں عائد کی تھیں۔ پاکستانی حکام کا الزام ہے کہ ڈیوٹی فری سامان افغانستان جانے کے بعد اسمگل ہو کر پاکستان پہنچ جاتا ہے جس سے پاکستان کی معیشت کو نقصان پہنچتا ہے۔
ترجمان نے کہا کہ پاکستان نے افغانستان کے لیے درآمدی اشیا کی ایک منفی فہرست متعارف کرائی ہے۔ یہ وہ پرتعیش اشیا ہیں جن کے بارے میں دیکھا گیا ہے کہ افغانستان درآمد ہونے کے بعد یہ پاکستان بھیج دی جاتی ہیں۔
طالبان حکومت کے تحفظات
دوسری جانب طالبان حکام کا کہنا ہے کہ افغانستان جانے والے لگ بھگ تین ہزار کنٹینرز کو روک دیا گیا ہے جس سے تاجروں کو لاکھوں ڈالر کا نقصان ہو رہا ہے۔
پاکستان کا دورہ کرنے والے افغانستان کے عبوری وزیر تجارت نور الدین عزیز نے پاکستان کے نگراں وزیر خارجہ جلیل عباس جیلانی سے ملاقات کے دوارن کراچی بندرگاہ پر پھنسے ہوئے افغانستان کے لیے درآمدی اشیا کے کنٹینرز کلئیر کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔
اقوامِ متحدہ کے کنونشن کے تحت ہمسایہ ممالک پر لازم ہے کہ وہ ایسے ممالک جو چاروں طرف سے خشکی میں گھرے ہیں، وہ انہیں تجارت کے لیے زمینی راستے سے سمندر تک پہنچنے کی سہولت فراہم کریں۔ لہذٰا اس حوالے سے پاکستان اور افغانستان کے درمیان معاہدے ہوتے رہے ہیں۔
لیکن اگست 2021 میں طالبان کے اقتدار میں آنے کے بعد اس معاملے پر بھی دونوں ملکوں کے تعلقات میں سرد مہری بڑھتی جا رہی ہے۔
'معاملہ بات چیت کے ذریعے حل کیا جا سکتا ہے'
افغان ٹرانزٹ ٹریڈ سے منسلک ایک تاجر نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر وائس آف امریکہ کو بتایا کہ پاکستان کئی دہائیوں سے ٹرانزٹ ٹریڈ کی سہولت فراہم کر رہا ہے۔
اُن کے بقول پاکستان کے تحفظات اپنی جگہ لیکن اس معاملے کو دونوں ممالک کے درمیان بات چیت سے حل کیا جا سکتا ہے۔ اس سہولت کے غلط استعمال کو روکا جا سکتا ہے اور اس کے لیے ایک مؤثر طریقۂ کار وضع کیا جا سکتا ہے۔
مذکورہ تاجر کا کہنا تھا کہ اگر پاکستان اور افغانستان نے ٹرانزٹ ٹریڈ کا معاملہ خوش اسلوبی سے حل نہ کیا تو اس کی وجہ سے دو طرفہ تجارت پر بھی منفی اثر پڑ سکتا ہے۔
پاکستان اور طالبان حکومت کے درمیان سرد مہری
طالبان کے اقتدار میں آںے کے بعد پاکستان میں عسکریت پسندی کی کارروائیاں میں اضافے کی وجہ سے کابل اور اسلام آباد میں تعلقات میں تناؤ دیکھنے میں آیا ہے۔
پاکستان کا یہ الزام رہا ہے کہ افغانستان میں پناہ لیے ہوئے کالعدم تحریکِ طالبان (ٹی ٹی پی) کے جنگجو سرحد پار کر کے پاکستان میں کارروائیاں کر رہے ہیں، لہذٰا طالبان حکومت انہیں روکے۔
پاکستان نے حال ہی میں یہ الزام بھی عائد کیا تھا کہ پاکستان میں دہشت گردی کے واقعات میں افغان شہری ملوث ہیں۔
افغان طالبان نے پاکستان کے ان الزامات کو مسترد کرتے ہوئے کہا تھا کہ پاکستان میں دہشت گردی کی روک تھام افغانستان کی ذمے داری نہیں ہے۔
پاکستان کے دفترِ خارجہ نے کہا کہ پاکستان اور افغانستان کے سفارت خانے فعال ہیں اور دونوں ممالک کے درمیان مسائل پر بات چیت کے لیے مختلف چینلز استعمال کیے جاتے ہیں۔
فورم