اسلام آباد —
قوانین کے نفاذ میں دشواریاں اور حکام کی سرد مہری نے ماہرین اور انسانی حقوق کی تنظیموں کے مطابق پاکستان میں جبری مشقت اور غلامی کی ’’لعنت‘‘ میں گرفتار افراد کے لیے کی جانے والی کوششوں کو بھرپور انداز میں کامیاب نہیں ہونے دیا۔
آسٹریلیا میں قائم تنظیم واک فری فاؤنڈیشن نے دنیا میں غلامی کی جدید اقسام میں موجودگی سے متعلق جاری کردہ اپنی حالیہ رپورٹ میں کہا ہے کہ دنیا بھر کی نسبت ایشیائی خطے میں ان افراد کی تعداد زیادہ ہے جو غلامی جیسے حالات میں زندگی بسر کر رہے ہیں اور پاکستان ایسے ممالک کی فہرست میں تیسرے نمبر پر ہے۔
اسی تناظر میں گزشتہ دو ہائیوں سے زائد عرصے سے پاکستان میں جبری مشقت سے متعلق کام کرنے والی غیر سرکاری تنظیم بونڈڈ لیبر لیبریشن فرنٹ کی جنرل سیکرٹری سیدہ غلام فاطمہ کا ہفتہ کو وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہنا تھا کہ غریب اور نادار لوگوں کو مختلف طریقوں سے قرضوں کے حصول پر مجبور کیا جاتا ہے اور پھر ان کے پورے کے پورے خاندانوں سے غلاموں کا سا رویہ رکھا جاتا ہے۔
’’غلام بنا کر رکھا جاتا ہے۔ ان کے مذہب تبدیل کیے جاتے ہیں۔ زبردستی شادیاں کروائی جاتی ہیں۔ ان کو ہوس کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ اس طرح جو گھروں میں کام کرنے والی عورتیں یا بچے ہیں۔ ہوٹلوں میں بچوں پر تشدد ہوتا ہے۔ انہیں بھیک مانگنے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔‘‘
آسٹریلوی تنظیم کے مطابق پاکستان میں 21 لاکھ افراد کو غلامی جیسے حالات کا سامنا ہے۔ غلاموں کی تعداد کے اعتبار سے بھارت سر فہرست جہاں ایسے افراد کی تعداد ایک کروڑ 40 لاکھ ہے جبکہ چین میں لگ بھگ 29 لاکھ غلام ہیں۔
پاکستان میں جبری مشقت کے خلاف قوانین موجود ہیں جس کے تحت پولیس کو اپنے متعلقہ علاقے میں ایسے کسی غیرقانونی عمل کے خلاف کارروائی کرنے کا حق حاصل ہے مگر دیگر انسانی حقوق کی تنظیموں کی طرح غلام فاطمہ کا کہنا تھا کہ اس بارے میں مجموعی طور پر رویوں میں بے اعتنائی پائی جاتی ہے۔
’’سب اچھا کی آواز ہے۔ آپ پوچھیں تو کہتے ہیں یہاں تو کوئی سلیوری ہے ہی نہیں۔ آپ سوچیں چار سال کی بچی عدالت کے حکم پر بھی پولیس نے بازیاب نا کی تو پھر جب ہم نے بھیس بدل کر یہ معلوم کروایا کہ وہ کہاں ہے تو پھر ایک جاگیدار کی حراست سے وہ چھڑوائی گئی۔‘‘
بونڈڈ لیبر لیبریشن فرنٹ کی عہدیدار کے بقول ملک میں جبری مشقت یا لوگوں کے غلامانہ طرز زندگی گزارنے کی ایک بڑی وجہ حکومت کی طرف سے طے کردہ کم سے کم اجرت کا نفاذ نہ کیا جانا بھی ہے۔
’’سوشل سیکورٹی کے ادارے سفید ہاتھی ہیں۔ کیوں نہیں وہ مزدروں کے قانون کے تحت رجسٹریشن کرتا؟ کیوں نہیں بھٹہ خشت کی رجسٹریشن کی جاتی؟ کیوں نہیں کم ازکم اجرت کا نفاذ ہوتا جبکہ بھٹہ خشت ایسوسی ایشن کے عہدیدار کہتے ہیں کہ وہ نہیں کریں گے؟ اور آپ نے خلاف ورزی کرنے والوں کوشناخت دی ہوئی ہے۔‘‘
مزدوروں کے عالمی ادارے کے عہدیداروں، انسانی حقوق کی تنظیموں اور ماہرین کا کہنا ہے کہ پاکستان میں جبری مشقت یا غلامی کی نئی اشکال کے تدارک کے لیے مزدو طبقے کے بارے میں مختلف نوعیت کے مستند اعداد و شمار کا جمع کیا جانا اب نا ناگزیر ہے۔
آسٹریلیا میں قائم تنظیم واک فری فاؤنڈیشن نے دنیا میں غلامی کی جدید اقسام میں موجودگی سے متعلق جاری کردہ اپنی حالیہ رپورٹ میں کہا ہے کہ دنیا بھر کی نسبت ایشیائی خطے میں ان افراد کی تعداد زیادہ ہے جو غلامی جیسے حالات میں زندگی بسر کر رہے ہیں اور پاکستان ایسے ممالک کی فہرست میں تیسرے نمبر پر ہے۔
اسی تناظر میں گزشتہ دو ہائیوں سے زائد عرصے سے پاکستان میں جبری مشقت سے متعلق کام کرنے والی غیر سرکاری تنظیم بونڈڈ لیبر لیبریشن فرنٹ کی جنرل سیکرٹری سیدہ غلام فاطمہ کا ہفتہ کو وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہنا تھا کہ غریب اور نادار لوگوں کو مختلف طریقوں سے قرضوں کے حصول پر مجبور کیا جاتا ہے اور پھر ان کے پورے کے پورے خاندانوں سے غلاموں کا سا رویہ رکھا جاتا ہے۔
’’غلام بنا کر رکھا جاتا ہے۔ ان کے مذہب تبدیل کیے جاتے ہیں۔ زبردستی شادیاں کروائی جاتی ہیں۔ ان کو ہوس کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ اس طرح جو گھروں میں کام کرنے والی عورتیں یا بچے ہیں۔ ہوٹلوں میں بچوں پر تشدد ہوتا ہے۔ انہیں بھیک مانگنے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔‘‘
آسٹریلوی تنظیم کے مطابق پاکستان میں 21 لاکھ افراد کو غلامی جیسے حالات کا سامنا ہے۔ غلاموں کی تعداد کے اعتبار سے بھارت سر فہرست جہاں ایسے افراد کی تعداد ایک کروڑ 40 لاکھ ہے جبکہ چین میں لگ بھگ 29 لاکھ غلام ہیں۔
پاکستان میں جبری مشقت کے خلاف قوانین موجود ہیں جس کے تحت پولیس کو اپنے متعلقہ علاقے میں ایسے کسی غیرقانونی عمل کے خلاف کارروائی کرنے کا حق حاصل ہے مگر دیگر انسانی حقوق کی تنظیموں کی طرح غلام فاطمہ کا کہنا تھا کہ اس بارے میں مجموعی طور پر رویوں میں بے اعتنائی پائی جاتی ہے۔
’’سب اچھا کی آواز ہے۔ آپ پوچھیں تو کہتے ہیں یہاں تو کوئی سلیوری ہے ہی نہیں۔ آپ سوچیں چار سال کی بچی عدالت کے حکم پر بھی پولیس نے بازیاب نا کی تو پھر جب ہم نے بھیس بدل کر یہ معلوم کروایا کہ وہ کہاں ہے تو پھر ایک جاگیدار کی حراست سے وہ چھڑوائی گئی۔‘‘
بونڈڈ لیبر لیبریشن فرنٹ کی عہدیدار کے بقول ملک میں جبری مشقت یا لوگوں کے غلامانہ طرز زندگی گزارنے کی ایک بڑی وجہ حکومت کی طرف سے طے کردہ کم سے کم اجرت کا نفاذ نہ کیا جانا بھی ہے۔
’’سوشل سیکورٹی کے ادارے سفید ہاتھی ہیں۔ کیوں نہیں وہ مزدروں کے قانون کے تحت رجسٹریشن کرتا؟ کیوں نہیں بھٹہ خشت کی رجسٹریشن کی جاتی؟ کیوں نہیں کم ازکم اجرت کا نفاذ ہوتا جبکہ بھٹہ خشت ایسوسی ایشن کے عہدیدار کہتے ہیں کہ وہ نہیں کریں گے؟ اور آپ نے خلاف ورزی کرنے والوں کوشناخت دی ہوئی ہے۔‘‘
مزدوروں کے عالمی ادارے کے عہدیداروں، انسانی حقوق کی تنظیموں اور ماہرین کا کہنا ہے کہ پاکستان میں جبری مشقت یا غلامی کی نئی اشکال کے تدارک کے لیے مزدو طبقے کے بارے میں مختلف نوعیت کے مستند اعداد و شمار کا جمع کیا جانا اب نا ناگزیر ہے۔