اپنی سالانہ رپورٹ میں ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان (ایچ آر سی پی) نے کہا ہے کہ گذشتہ سال ملک میں حقوق انسانی کی مجموعی صورت حال تشویش ناک رہی کیوں کہ لاپتا افراد کی بازیابی کے لیے عدالتی اور حکومتی اقدامات کے باوجود خصوصاََ بلوچستان میں مبینہ طور پر سکیورٹی ایجنسیوں کے ہاتھوں لوگوں کو غیر قانونی حراست میں لینے کا سلسلہ جاری رہا۔
اس کے علاوہ تنظیم کا کہنا ہے کہ خواتین کے خلاف تشدد کے واقعات بھی آئے روز ذرائع ابلاغ میں آتے رہے جب کہ پاکستان کی مذہبی اقلیتوں کے لیے 2010ء بد ترین سال ثابت ہوا۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ گذشتہ سال دہشت گردی کے مختلف واقعات میں اڑھائی ہزار سے زائد افراد ہلاک ہوئے جب کہ مبینہ امریکی ڈرون حملوں میں مرنے والے عام شہریوں کی تعداد 957 بتائی گئی ہے۔ اس کے علاوہ کراچی میں ہدف بنا کر سیاسی جماعتوں کے کارکنوں کے قتل کے واقعات کا سلسلہ بھی بلا روک ٹوک جاری رہا اور ان میں مجموعی طور پر اڑھائی سو سے زائد افراد ہلاک ہوئے۔
تاہم تنظیم کے عہدے داروں نے اعتراف کیا ہے کہ رپورٹ میں زیادہ تر اعداد وشمار ذرائع ابلاغ میں شائع ہونے والی خبروں سے اکٹھے کیے گئے ہیں۔
ایچ آر سی پی کی سالانہ رپورٹ میں پارلیمان میں موجود سیاسی جماعتوں اور اراکین پر زور دیا گیا ہے کہ وہ معمولی نوعیت کے معاملات پر بحث ومباحثے پر وقت ضائع کرنے کے بجائے پاکستان میں انسانی حقوق کی پامالیوں کی حوصلہ شکنی کے لیے مل کر قانون سازی پر توجہ دیں۔
سیاسی جماعتوں کے اپنے اندرونی ڈھانچوں میں جمہوریت کی عدم موجودگی کے الزام کو درست قراردیتے ہوئے رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ’’جب تک یہ (سیاسی جماعتیں) جمہوری اور فعال تنظیموں کے طور پر کام کرنا شروع نہیں کریں گی ریاست کو درکار ایک نمائندہ انتظامیہ کا مقصد کبھی پورا نہیں ہو گا۔‘‘
تنظیم کے سیکرٹری جنرل آئی اے رحمن نے رپورٹ کے اجراء کے بعد وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ اگر حکومت صورت حال کو بہتر کرنے میں ناکام ہے تو دیگر سیاسی جماعتیں اس سلسلے میں کردار ادا کیوں نہیں کر رہیں۔
”سیاسی جماعتیں اپنا کام جانتی نہیں ہیں کیوں کہ مارشل لاء اتنے عرصے تک رہا کہ سیاسی جماعتیں اپنا کام بھول گئی ہیں۔ اُن (کے رہنماؤں) کا عوام سے رابطہ نہیں ہے وہ صرف اپنے الیکشن آفس میں بیٹھ کر بات کرتے ہیں، جب تک سیاسی جماعتیں لوگوں سے جڑیں گی نہیں لوگوں کے معاملات سمجھیں گی نہیں۔ جیسے مثال کے طور پر سیلاب سے متاثرہ علاقے ہیں۔ حکومت اگر کچھ نہیں کر رہی ہے تو ممبران پارلیمنٹ جائیں وہاں پہ دیکھیں اُن کے حالات، مگر وہ نہیں کرتے۔“
ایچ آر سی پی نے اپنی سالانہ رپورٹ میں پاکستان کی اعلیٰ عدلیہ کو بھی تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا ہے کہ لاپتا افراد کے مقدمے میں کافی شواہد سامنے آنے کے باوجود تاحال ان واقعات میں ملوث کسی ایک فرد کو بھی انصاف کہ کٹہرے میں نہیں لایا گیا ہے۔
تنظیم کے عہدے داروں کا کہنا ہے کہ بلوچستان کے حالات کو اگر درست کرنے کے لیے ملک کے حکمرانوں نے ہنگامی اقدامات نہ کیے اور لاپتا
افراد کے معمے کو جلد حل نہ کیا گیا تو اُن کے بقول معاملات ہاتھ سے نکل جائیں گے۔
ایچ آر سی پی کے چیئرمین ڈاکٹر مہدی حسن کا کہنا تھا کہ کے اس وقت پاکستان میں سب سے بڑا مسئلہ امن وامان کا ہے کیونکہ قانون کی بالا دستی قائم کرنے سے ہی دہشت گردی، ٹارگٹ کلنگ، ماورائے عدالت قتل اور دیگر ایسے مسائل کو حل کیا جاسکتا ہے۔
”قبائلی علاقوں میں تو جنگ ہو رہی ہے اس لیے وہاں تو آپ کہہ سکتے ہیں کہ وہ تو حالت جنگ میں ہیں۔ لیکن کراچی اور بلوچستان کے واقعات بہت تشویش ناک ہیں۔ خاص طور پر بلوچستان کے مسئلے کوترجیحات میں سرفہرست رکھ کر سیاسی جماعتوں کو جلد حل کرنے کی کوشش کرنی چاہیئے۔ مگر پاکستان کے میڈیا نے اور پاکستان کی سیاسی جماعتوں نے اُسے(بلوچستان) نظر انداز کیا۔“