رسائی کے لنکس

جنوبی وزیرستان: تادیبی کارروائی انتظامیہ نے ایک مارکیٹ 'تباہ' کردی


فائل فوٹو
فائل فوٹو

سکیورٹی فورسز نے یہاں کرفیو نافذ کرنے تلاشی کی کارروائیاں جاری رکھی تھیں اور ایک روز قبل ہی سلطان بازار میں واقع المحب مارکیٹ کو انتظامیہ نے قبائلی علاقوں میں رائج قانون کے تحت دھماکا خیز مواد لگا کر تباہ کر دیا۔

پاکستان کے قبائلی علاقے جنوبی وزیرستان میں مقامی انتظامیہ نے تادیبی کارروائی کرتے ہوئے ایک بازار میں واقع دکانوں کو دھماکا خیز مواد سے اڑا دیا جس پر مقامی قبائلیوں کی طرف سے تشویش کا اظہار کیا جا رہا ہے۔

رواں ہفتے افغان سرحد سے ملحقہ اس قبائلی علاقے کے مرکزی قصبے وانا میں سکیورٹی فورسز تلاشی کی کارروائیوں میں مصروف تھیں کہ یہاں ایک بم دھماکا ہوا جس میں پاکستانی فوج کا ایک میجر ہلاک اور متعدد افراد زخمی ہوگئے تھے۔

سکیورٹی فورسز نے یہاں کرفیو نافذ کرنے تلاشی کی کارروائیاں جاری رکھی تھیں اور ایک روز قبل ہی سلطان بازار میں واقع المحب مارکیٹ کو انتظامیہ نے قبائلی علاقوں میں رائج قانون کے تحت دھماکا خیز مواد لگا کر تباہ کر دیا۔

جنوبی وزیرستان کے اسسٹنٹ پولیٹیکل ایجنٹ نیاز محمد نے ہفتہ کو وائس آف امریکہ کو بتایا کہ یہ کارروائی اجتماعی علاقائی ذمہ داری کے قانون کے تحت کی گئی۔

"اس میں کسی کے بھی قبضے سے گھر سے یا دکان سے کوئی ممنوعہ چیز برآمد ہوتی ہے تو اس کے خلاف یہ کارروائی کی جاتی ہے اور یہ پہلے بھی کی جاتی رہی ہیں۔۔۔امن و امان برقرار رکھنے کے علاوہ (اس سے لوگوں میں ایک) پیغام بھی جائے گا۔"

مقامی قبائلیوں نے بتایا کہ تباہ کی گئی مارکیٹ سے لگ بھگ ڈیڑھ سو لوگوں کا روزگار وابستہ تھا اور لوگ اس کارروائی پر خوش نہیں ہیں۔

ایک مقامی قبائلی ظفر وزیر نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں دعویٰ کیا کہ بم دھماکے کے شبہ میں حکام ایک شخص کو گرفتار کر چکی تھیں لہذا یہ کارروائی مناسب نہیں تھی۔

"جس بندے کے پیچھے فورسز لگی ہوئی تھیں اس کو زخمی حالت میں گرفتار کر لیا گیا تھا اور اس کے قلعہ نما گھر کو قبائلی جرگے اور فورسز نے مسمار کر دیا تھا اس کے بعد کاروباری مراکز والوں کا خیال ہے کہ حکام کے پاس کوئی جواز نہیں تھا۔"

جنوبی وزیرستان میں ایک عرصے قبل شدت پسندوں نے اپنے ٹھکانے بنا رکھے تھے لیکن 2009ء میں یہاں فوج نے بھرپور آپریشن کر کے عسکریت پسندوں کو نکال باہر کیا تھا۔

قبائلی علاقوں میں رائج فرنٹیئر کرائمز ریگولیشن سو سال سے پرانا قانون ہے اور قبائلیوں کی اکثریت کی طرف سے یہ مطالبات کیے جاتے رہے ہیں کہ اس قانون کو ختم کیا جائے۔

XS
SM
MD
LG