پاکستان کے اقتصادی مرکز کراچی میں امن و امان کی خراب صورتحال اور حکومت کی جانب سے تحفظ دینے میں ناکامی پر تاجروں نے منگل کو شہر میں کاروبار بند رکھنے کا اعلان کیا ہے۔
ایوان صنعت و تجارت کراچی کے صدر محمد سعید شفیق نے وی او اے کو بتایا کہ شہر میں کاروباری مراکز بالخصوص تھوک بازاروں میں جرائم پیشہ افراد کی جانب سے بھتہ خوری ، تشدد کا نشانہ بنانے ، اغواء برائے تاوان اور بھتہ نہ دینے کی صورت میں جرائم پیشہ افراد کی جانب سے تاجروں کو سنگین نتائج کی دھمکیوں جیسے واقعات میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے ۔
ان کا کہنا تھا کہ کراچی میں کاروباری سرگرمیاں اور سرمایہ کاری تسلسل سے جاری ٹارگٹ کلنگ سے بری طرح متاثر ہے ۔ ایسے میں تاجروں کو ہراساں کرنے سے حالات بدتر سے بدترین ہوتے جا رہے ہیں۔
سندھ کی صوبائی حکومت نے تاجروں کو تحفظ فراہم کرنے اور جرائم پیشہ عناصر کے خلاف موثر کارروائی کے دعوے بار بار کیے ہیں۔ لیکن ایوان صنعت و تجارت کے صدر سعید شفیق کہتے ہیں کہ حکومتی تعاون ڈیڑھ سال سے صرف یقین دہانیوں تک ہی محدود ہے۔
تاجروں کا الزام ہے کہ جرائم پیشہ افراد کو سیاسی تحفظ بھی حاصل ہے جس کی وجہ سے پولیس انہیں گرفتار نہیں کرتی یا پھر گرفتاری کے بعد سیاسی دباوٴ کے تحت رہا کرنے پر مجبور ہوجاتی ہے ۔
اتوار کو آئی جی سندھ فیاض لغاری نے صحافیوں کو بتایا کہ پولیس تاجروں کو تحفظ فراہم کرنے کے لیے تجارتی علاقوں میں نفری بڑھانے سمیت کلوز سرکٹ کیمرے نصب کرنے جیسے اقدامات کر رہی ہے اور اب تک ٹارگٹ کلنگ میں ملوث تیس افراد کو گرفتار کیا جا چکا ہے ۔
کراچی کی سب سے بڑی جماعت ایم کیو ایم نے تاجروں کی ہڑتال کی حمایت کا اعلان کرتے ہوئے حکومت سے جرائم پیشہ افراد کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کیا ہے ۔
پونے دو کروڑ سے زائد آبادی رکھنے والے پاکستان کے سب سے بڑے شہر میں پولیس کی نفری تقریباً تیس ہزار ہے جو یہاں امن و امان کی بہتری کے لیے ناکافی ہے۔ پولیس میں درج ایف آئی آر کے مطابق رواں سال کے ابتدائی تین ماہ میں سو کے قریب افراد ہدف بنا کر قتل کیے گئے لیکن پاکستان میں انسانی حقوق کے کمیشن کے مطابق یہ تعداد ڈھائی سو سے زیادہ ہے۔
غیر جانبدار مبصرین کہتے ہیں کہ کراچی میں بد امنی کے واقعات یہاں سیاسی جماعتوں کی جانب سے اپنا اثرو رسوخ قائم کرنے کے لیے ہے۔