پاکستان کے سب سے بڑے شہر کراچی میں ان دنوں امن و امان کی حالت اس قدر مخدوش ہے کہ لوگ خود کو نہ دن میں محفوظ سمجھتے ہیں نہ رات کو۔ شہر اعصاب شکن حالات میں گھرا ہوا ہے ۔ ٹارگٹ کلنگ تو یہاں کا ایک سنگین مسئلہ تھا ہی اب راکٹوں کے حملے بھی ہونے لگے ہیں۔ اغواکی وارداتیں روز بہ روز بڑھ رہی ہیں ، تشدد عام اور لاشیں ملنے کا سلسلہ طول کھینچتا جارہا ہے۔ اسٹریٹ کرائم ہیں کہ بڑھتے ہی جارہے ہیں ،شہر بھر میں بے یقینی کی کیفیت ہے۔کس علاقے میں کب اور کیا ہوجائے کچھ نہیں کہا جاسکتا۔
ٹارگٹ کلنگ کی وارداتوں کے نتیجے میں مرنے والوں میں کراچی کی تمام بڑی سیاسی جماعتوں یعنی پاکستانی پیپلز پارٹی، متحدہ قومی موومنٹ، عوامی نیشنل پارٹی ، جماعت اسلامی اورسنی تحریک کے کارکنان بھی شامل ہیں ۔ تجزیہ نگاروں کے مطابق شہر میں کہیں بھی ٹارگٹ کلنگ کی واردات ہو سب سے پہلے مرنے والے کی نسلی شناخت معلوم کی جاتی ہے جس سے اس بات کا اندازہ لگایا جاتا ہے کہ مارنے والوں کا کیا پس منظر ہوسکتا ہے یا مرنے والے کا کس جماعت سے تعلق ہوسکتا ہے ۔ اگر نسلی شناخت سے کام نہ چلے تو پھر فرقہ معلوم کیا جاتا ہے۔
تجزیہ نگاروں کا کہناہے کہ بدقستمی سے کراچی میں نسلی عداوتیں بھی ٹارگٹ کلنگ کی بڑی وجہ ہیں۔ نسلی عداوتوں کو ہی ذاتی و سیاسی مفادات کا نام دے دیا جاتا ہے۔ بعض تجزیہ نگاروں کا ماننا ہے کہ ٹارگٹ کلنگ شہر کے وسائل پر قبضے کی جنگ ہے اور اس میں ایک دو نہیں ساری کی ساری سیاسی جماعتیں ملوث ہوسکتی ہیں۔
کچھ مبصرین کا خیال یہ بھی ہے کہ ٹارگٹ کلنگ کی ایک وجہ سیاسی رہنماوٴں کے کڑوے کسیلے بیانات بھی ہیں جو دراصل نفرتوں کے بیج بور ہے ہیں۔ آج شاید ہی کوئی ایسی جماعت ہوگی جس کا کوئی رہنما غیر پارلیمانی زبان نہ بولتا ہو۔ یہ زبانیں اور یہ بیانات ہی تنازعات کا سبب بنتے ہیں، انہی جماعتوں کے کارکنان آپس میں لڑتے اور ایک دوسرے کے خلاف ہتھیار اٹھاتے ہیں۔ کیوں کہ ٹارگٹ کلنگ کا مطلب ہی دانستہ اپنے مقررہ 'ہدف' کو راستے سے ہٹانا ہوتاہے۔
کراچی گروپس میں تقسیم
کراچی کے حالات پر گہری نظر رکھنے والے طبقوں کا کہنا ہے کہ کراچی میں کئی گروپس کام کررہے ہیں۔ شہریوں کا اس بات کا علم ہے کہ کون سا علاقہ کون سی جماعت ، کون سی نسل ، کون سے فرقے یا کون سے گروپ کا ہے۔ خوف کے مارے ایک علاقہ کا رہنے والا دوسرے علاقے میں جاتے ہوئے ڈرتا ہے۔کچھ علاقے ایسے ہیں کہ یہاں دکانداروں اور تاجروں سے باقاعدہ بھتہ وصول کیا جاتا ہے۔ باخبر حلقے کہتے ہیں کہ گلستان جوہر کے علاقے میں بلڈرز کو سب سے زیادہ بھتہ دینے والوں سے شکایت اور ان سے اپنی جان کا خطرہ ہے۔
اطلاعات کے مطابق صنعتی علاقوں میں بھتہ خوری کی شکایات پر صنعت کاروں نے ملک سے بیرون ملک صنعتیں منتقل کرنے کا فیصلہ کرلیا ہے۔ اس وقت کراچی کے تاجر سب سے زیادہ بنگلہ دیش اور متحدہ عرب امارات منتقل ہونے کا پروگرام ترتیب دیئے بیٹھے ہیں ۔ چند ایک تو جا بھی چکے جبکہ کچھ سرمایہ کار کینیڈا اور دیگر ممالک کی شہریت کے حصول میں ہیں۔
رہائشی علاقوں میں دھماکا خیز مواد کے دھماکے
سوات اور دیگر علاقوں میں جہاں پچھلے سال عسکری آپریشن ہوئے وہاں سے کراچی آبسنے والے مبینہ دہشت گردوں نے بھی کراچی کو امن سے نہیں رہنے دیا ۔ یہ لوگ رہائشی آبادیوں میں چھپ کر گھروں میں دھماکا خیز مواد سے بلا خوف و خطر' کھیل ' رہے ہیں۔ چند ماہ پہلے کراچی کے ہی ایک علاقے میں گھر میں بم بناتے ہوئے ایک مبینہ دہشت گرد اچانک دھماکا ہونے سے کئی افراد سمیت مارا گیا تھا جبکہ اس سے پہلے بھی ایسا ہی ایک اور واقعہ ہوا تھا جس میں خواتین سمیت کئی لوگ مارے گئے تھے۔
ٹارگٹ کلنگ کا خاتمہ ممکن ہے؟
جی ہاں! ٹارگٹ کلنگ کا خاتمہ ممکن ہے۔مسلم لیگ ق کے رہنما مشاہد حسین کا کہنا ہے کہ حالات کی خرابی کا الزام کراچی کی تینوں بڑی جماعتیں ایک دوسرے پر دھرتی ہیں جبکہ حالات خراب کرنے میں تینوں ہی ملوث ہیں۔ دراصل کوئی بھی فریق یہ مسئلہ حل کرنا نہیں چاہتا۔ پولیس کو سب پتہ ہے کہ کون کیا کررہا ہے۔
پولیس ناکام ، اہلکار آپریشن کے نام سے ڈرنے لگے
مبصرین کہتے ہیں کہ شہر کے مختلف علاقوں میں بلاناغہ شہریوں کے قتل عام کے باوجود پولیس اور سیکورٹی ادار ے موثر حکمت عملی اپناتے ہوئے ڈرتے ہیں۔ پولیس ٹارگٹ کلنگ کو روکنے میں بری طرح ناکام ہوچکی ہے۔ محکمہ پولیس کے افسران کی تبدیلی بھی کارگر ثابت نہیں ہوئی اورمحض چند ہفتوں کے دوران ہی سو سے زائد افراد اپنی زندگی کی بازی ہار چکے ہیں۔ گزشتہ کئی ہفتوں سے پولیس اوررینجرز کی موجودگی میں بھی خون کی ہولی کھیلی جارہی ہے ۔جرائم پیشہ عناصر یا ملزمان اغوا کی وارداتیں کرتے اور آسانی سے فرار ہوجاتے ہیں۔ انہیں لاشیں پھینکتے ہوئے بھی کوئی نہیں دیکھتا ۔
سیکورٹی اداروں اور کراچی کو فو ج کے حوالے کرنے سے متعلق سوال پر پیپلز پارٹی کی رہنما اور وفاقی وزیر اطلاعات فردوس عاشق اعوان کا کہنا ہے کہ کراچی میں فوجی آپریشن ماضی میں بھی کئے گئے لیکن اس کے نتائج مثبت نہیں نکلے۔ فوج کا استعمال ہمارے پاس آخری آپشن ہے۔ اسے پہلے استعمال نہیں کرنا چاہئے، اگر فوج بھی کامیاب نہ ہوئی تو پھر کیا ہوگا؟
انہوں نے کہا کہ پچھلے دنوں وزیر داخلہ رحمن ملک نے وفاقی کابینہ کو بریفنگ میں کہا تھا کہ کراچی آپریشن میں دو مشکلات ہیں ایک یہ کہ کراچی میں پہلے جو فوجی آپریشن کیا گیا تھا اس میں حصہ لینے والے 194 اہلکاروں میں سے اب صرف چار زندہ ہیں باقی سب کو چن چن کر قتل کیا جاچکا ہے ۔ اس لئے اب سیکورٹی اہلکار آپریشن میں حصہ لینے سے ڈرتے ہیں۔