رسائی کے لنکس

فوجی تنصیب پر حملہ:پاکستان نےافغان سفارت خانے کےنائب سر براہ کوطلب کر لیا


 بنوں میں فوجی کمپاؤنڈ پر عسکریت پسندوں کے ایک حملے کے بعد کا منظر، فوٹو اے پی، 15 جولائی 2024
بنوں میں فوجی کمپاؤنڈ پر عسکریت پسندوں کے ایک حملے کے بعد کا منظر، فوٹو اے پی، 15 جولائی 2024
  • پاکستان نے فوجی اڈے پر مہلک حملے پرسرکاری سفارتی نوٹ پیش کرنے کے لیےا فغانستان کے سفارت کار کو طلب کر لیا۔
  • بیان میں طالبان حکام پر زور دیا گیا کہ وہ حملے کی "مکمل تحقیقات کریں اور مرتکب افراد کے خلاف فوری،بھر پور اور موثر اقدام کریں"۔
  • کابل میں طالبان حکام نے ان الزامات پر فوری طور پر کوئی ردعمل ظاہر نہیں کیا ہے۔

پاکستان نے اپنے شمال مغربی علاقے بنوں میں فوجی چھاونی پر حالیہ دہشت گرد حملے کے خلاف،جس میں آٹھ فوجی ہلاک اور متعدد زخمی ہوئے تھے،بدھ کو افغانستان کی طالبان حکومت کو ایک سرکاری شکایت درج کرائی ہے۔ اس حملے میں جوابی کارروائی میں 10 دہشت گردوں کو ہلاک کرنے کا دعویٰ کیا گیا تھا۔

وزارت خارجہ نے کہا کہ اس نے اسلام آباد میں افغان سفارت خانے کے نائب سربراہ کو بنوں کے فوجی علاقے میں پیر کو علی الصبح ہونے والے اچانک حملے کے بارے میں ایک " سخت ڈیماژ" یا سرکاری سفارتی نوٹ پیش کرنے کے لیے طلب کیا تھا۔

بیان میں طالبان حکام پر زور دیا گیا کہ وہ حملے کی "مکمل تحقیقات کریں اور مرتکب افراد کے خلاف فوری،بھر پور اور موثر اقدام کریں"۔

پاکستان نے بنوں کینٹ پر حملے کا الزام افغانستان میں مبینہ طور پر موجود حافظ گل بہادر گروپ پر عائد کیا تھا۔

احتجاجی مراسلے میں کہا گیا ہے کہ حافظ گل بہادر گروپ اور کالعدم تحریکِ طالبان (ٹی ٹی پی) کے افغانستان میں موجود ٹھکانے پاکستان میں دہشت گردی کی کارروائیوں کا باعث بن رہے ہیں جن میں سینکڑوں شہری ہلاک اور متعدد زخمی ہوئے ہیں۔

ٖفوجی احاطے پر حملہ

پاکستانی فوج نے کہا ہے کہ بھاری ہتھیاروں سے مسلح 10 افراد نےبنوں کے فوجی احاطے پر حملہ کیا تھا اور وہ سب سیکیورٹی فورسز کے ساتھ کئی گھنٹوں تک جاری رہنے والی مسلح جھڑپ میں مارے گئے تھے۔

وزارت خارجہ نے زور دیا کہ حملہ آور عالمی سطح پر نامزد دہشت گرد گروپ تحریک طالبان پاکستان یا ٹی ٹی پی کے اتحادی تھے، جو افغانستان میں مقیم ہیں اور سرحد پار سے حملوں کی منصوبہ بندی کر رہے ہیں۔

بیان میں کہا گیا ہے کہ یہ گروپ سینکڑوں پاکستانی شہریوں اور سیکیورٹی فورسز کے ارکان کی ہلاکتوں کا ذمہ دار ہے۔ اس نوٹ میں ڈی فیکٹو افغان حکام پر زور دیا گیا کہ وہ ہلاکت خیز تشدد کی "مکمل تحقیقات کریں اور مرتکب افراد کے خلاف فوری،بھر پور اور موثر کارروائی کریں" اور افغان سرزمین سے" اس طرح کے حملوں کو دوبارہ ہونے سے روکیں"۔

کابل میں طالبان حکام نے ان الزامات پر فوری طور پر کوئی ردعمل ظاہر نہیں کیا ہے، اگرچہ وہ اس سے قبل ایسے الزامات کی تردید اور یہ دعوی ٰ کرتے رہے ہیں کہ افغان سرزمین میں کوئی غیر ملکی گروپ موجود نہیں ہے۔

افغانستان میں طالبان حکومت اپنی سرزمین دہشت گردی کے خلاف استعمال ہونے کے الزامات کو رد کرتے ہوئے دہشت گردی کو پاکستان کا اندرونی معاملہ قرار دیتی رہی ہے۔

پاکستانی سکیورٹی حکام نے دعویٰ کیا ہے کہ بنوں حملے کی ان کی تحقیقات میں ہلاک ہونے والے حملہ آوروں میں سے ایک کی شناخت افغان شہری کے طور پر ہوئی ہے۔ انہوں نے کہا کہ وہ مشرقی افغان صوبے لوگر کا رہائشی اور افغان طالبان کا ایک سرگرم جنگجو تھا۔

بدھ کے روز وزارت خارجہ نے "دہشت گردی کے خلاف فیصلہ کن کارروائی" کے اسلام آباد کے مطالبے کو دہراتے ہوئے کہا، "پاکستان نے افغانستان کے اندر دہشت گرد تنظیموں کی موجودگی پر اپنے شدید تحفظات کا اعادہ کیا جو پاکستان کی سلامتی کے لئے مسلسل خطرہ ہیں ۔،"

امریکی ردعمل

منگل کے روز، امریکہ نے، پاکستان میں عسکریت پسندوں کے بڑھتے ہوئےتشدد پر تبصرہ کرتے ہوئے، طالبان حکام سے افغانستان سے نکلنے والےشدت پسند خطرات سے نمٹنے کے اپنے مطالبے کی تجدید کی ۔

امریکی محکمہ خارجہ کے ترجمان میتھیو ملر، فائل فوٹو
امریکی محکمہ خارجہ کے ترجمان میتھیو ملر، فائل فوٹو

امریکی محکمہ خارجہ کے ترجمان میتھیو ملر نے واشنگٹن میں نامہ نگاروں کو بتایا کہ علاقائی سلامتی کو درپیش خطرات سے نمٹنے میں ہمارے پاکستانی عوام اور حکومت پاکستان کے ساتھ مشترکہ مفادات ہیں۔

ملر نے مزیدکہا ، "ہم طالبان پر مسلسل زور دیتے ہیں کہ وہ اس بات کو یقینی بنائیں کہ افغان سرزمین سے دہشت گرد حملے لانچ نہ ہوں۔ یہ ان کے ساتھ ہمارے ربط ضبط میں ہمارے لیے ایک ترجیح رہی ہے ، اور یہ جاری رہے گی۔

اقوام متحدہ نے رواں ماہ کے شروع میں افغانستان میں سلامتی کی صورتحال پر ایک رپورٹ جاری کی تھی، جس میں ٹی ٹی پی کو ملک میں سرگرم "سب سے بڑا دہشت گرد گروپ" قرار دیا گیا تھا۔

اقوام متحدہ کی پابندیوں کی مانیٹرنگ ٹیم کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ "ٹی ٹی پی افغانستان میں مسلسل بڑے پیمانے پر کام کر رہی ہے اور وہاں سے، اکثر افغان شہریوں کو استعمال کرتے ہوئے، پاکستان میں دہشت گردی کی کارروائیاں کرتی ہے ۔ رپورٹ میں کہا گیا کہ،" حکمران طالبان اور القاعدہ کی جانب سے سرحد پار ٹی ٹی پی کے حملوں کی سپورٹ میں اضافہ ہورہا ہے۔

اقوام متحدہ کی رپورٹ میں مزید کہا گیاکہ "طالبان ٹی ٹی پیکو ایک دہشت گرد گروپ تصور نہیں کرتے ہیں، تعلقات قریبی ہیں، اور ٹی ٹی پی پر واجب الادا قرض بہت زیادہ ہے۔"

طالبان حکومت کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے اقوام متحدہ کے نتائج کو یہ کہتے ہوئے مسترد کر دیا تھا کہ وہ کابل میں ان کی اسلامی انتظامیہ کو بدنام کرنے کی کوششوں کا حصہ ہیں۔

ٹی ٹی پی کے بارے میں، جسے عام طور پر پاکستانی طالبان کہا جاتا ہے، یہ سمجھا جاتا ہے کہ اس نے عوامی طور پر افغان طالبان سے وفاداری کا عہد کیا ہے۔

اس نے اپنے افغان نظریاتی اتحادیوں کو 2021 میں امریکہ اور بین الاقوامی فورسز کے انخلا اور افغانستان پر طالبان کے اقتدار پر دوبارہ کنٹرول کرنے تک، برسوں تک امریکی قیادت کے اتحاد کے خلاف شورش پسند حملوں میں مدد کےلیے پاکستانی سر زمین پر پناہ فراہم کی تھی اور ان کی بھرتیاں کی تھیں۔

فورم

XS
SM
MD
LG