رسائی کے لنکس

طالبان کی اخلاقی پولیس عوام میں خوف وہراس پیدا کر رہی ہے: اقوام متحدہ


افغانستان میں اقوام متحدہ کے مشن کی سربراہ، روزا اوتن بائیفا، نے ،7 جون 2024 کو کابل میں طالبان کے وزیر خارجہ امیر خان متقی سے ملاقات کی (بشکریہ متقی کا دفتر)
افغانستان میں اقوام متحدہ کے مشن کی سربراہ، روزا اوتن بائیفا، نے ،7 جون 2024 کو کابل میں طالبان کے وزیر خارجہ امیر خان متقی سے ملاقات کی (بشکریہ متقی کا دفتر)

  • طالبان کی اخلاقی پولیس افغان عوام میں خوف کی فضا پیدا کر رہی ہے: اقوام متحدہ
  • حکم نامے اور ان پر عملدرآمد کےکچھ طریقوں سے انسانی حقوق اور بنیادی آزادیوں کی خلاف ورزی ہوئی ہے ۔
  • وزارت نے اقوام متحدہ کی رپورٹ کو مسترد کرتے ہوئے اس کے نتائج کو غلط اور متضاد قرار دیا۔

افغانستان میں اقوام متحدہ کے مشن یا یوناما کی، منگل کو شائع ہونے والی ایک رپورٹ کے مطابق، اخلاقیات سے متعلق طالبان کی پولیس عوام میں خوف و ہراس کا ماحول پیدا کرنے میں کردار ادا کررہی ہے۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ حکم ناموں اور ان پر عملدرآمد کے لیے استعمال کیے جانے والے کچھ طریقوں سے انسانی حقوق اور بنیادی آزادیوں کی خلاف ورزی ہوئی ہے ۔

طالبان کی وزارت نے اقوام متحدہ کی رپورٹ کو مسترد کرتے ہوئے اس کے نتائج کو غلط اور متضاد قرار دیا۔

وزارت نے کہا، " حکمنامے اور متعلقہ قانونی دستاویزات کا اجرا معاشرے کی اصلاح کے لئے کیا جاتا ہے اور ان پر عمل درآمد کویقینی بنایا جانا چاہیے

طالبان نے 2021 میں افغانستان کے اقتدار پر قبضے کے بعد نیکی کے حکم او ر برائی کی روک تھام کے لئے ایک وزارت،"امر بالمعروف و نہی عن المنکر" قائم کی تھی ۔

تب سے، اس وزارت نے طالبان قیادت کی جانب سے جاری کیے گئے ایسے احکامات کا نفاذ کیا ہے ،جن سے سب سے زیادہ خواتین اور لڑکیاں متاثر ہوئی ہیں ، مثلاً، لباس کے ضابطے، مردوں سے الگ تعلیم اور ملازمت، اور سفر کرتے ہوئے ایک مرد سرپرست کو لازمی ساتھ رکھنا ۔

افغانستان میں اقوام متحدہ کے مشن کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ "ہدایات اور حکمناموں کی تعمیل نہ کرنے پر جو سزائیں دی جاتی ہیں وہ اکثر غیر معقول، سخت اور غیر متناسب ہوتی ہیں۔"

رپورٹ کے مطابق "خواتین کے لئے امتیازی برتاؤ کی حامل جامع پابندیاں متعارف کرائی گئی ہیں۔ انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے ساتھ ساتھ عمل درآمدکے اقدامات کی غیر یقینی صورتحال، آبادی کے کچھ طبقوں میں خوف و ہراس کی فضا پیدا کرتی ہے۔

مشن نے کہا کہ اس نے اگست 2021 سے مارچ 2024 کے درمیان کم از کم ایسے1,033 واقعات کو دستاویزی طور پر پیش کیا ہے جہاں وزارت کے ملازمین نے احکامات پر عملدرآمد کے دوران طاقت کا استعمال کیا، جس کے نتیجے میں کسی شخص کی آزادی، اور جسمانی اور ذہنی سالمیت کی خلاف ورزی ہوئی۔

"اس میں ، قانون نافذ کرنے والے ڈی فیکٹو اہلکاروں کی طرف سے دھمکیوں کا استعمال، بے جا گرفتاریاں اور حراستیں، طاقت کا ضرورت سے زیادہ استعمال اور بد سلوکی شامل ہے۔"

رپورٹ کے مطابق،’’ ان واقعات نے زیادہ تر مردوں کو متاثر کیا، جنہیں مبینہ طور پر طالبان کے احکامات کی خلاف ورزی کرنے یا اپنی رشتے دار خواتین کی جانب سے طالبان کے احکامات کی خلاف ورزی کرنے کی وجہ سے سزا دی گئی۔‘‘

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ وزارت کا عمل دخل، میڈیاکی نگرانی اور منشیات کی لت کے خاتمے سمیت ،عوامی زندگی کے دوسرے شعبوں میں پھیل رہا ہے۔

یوناما کی ہیومن رائٹس سروس کی سربراہ فیونا فریزر نے کہا، "رپورٹ میں اجاگر کیے گئے متعدد مسائل کے پیش نظر،ڈی فیکٹو حکام کی طرف سے اس موقف کا اظہار کہ یہ نگرانی بڑھتی اور پھیلتی جائے گی، تمام افغان شہریوں، خاص طور پر خواتین اور لڑکیوں میں نمایاں تشویش کو جنم دیتا ہے ۔"

مشن کی رپورٹ اس کے ایک ہفتے بعد سامنے آئی ہے جب طالبان کے ایک وفد نے ملک کے اقتصادی چیلنجوں اور انسانی ہمدردی کے بحرانوں کے دوران، افغانستان کے ساتھ تعلقات بڑھانے سے متعلق اقوام متحدہ کے زیر اہتمام ایک اجلاس میں شرکت کے لیے قطر کا دورہ کیا۔

اس اجلاس نے انسانی حقوق کے گروپس اور کارکنوں میں برہمی کو جنم دیا کیونکہ اس میں افغان خواتین اور سول سوسائٹی کو شامل نہیں کیا گیا تھا۔

اس رپورٹ کےلیےمعلومات اے پی سے لی گئی ہیں۔

فورم

XS
SM
MD
LG