پاکستان کی عدالت عظمیٰ نے پاناما پیپرز کے معاملے پر وزیراعظم نواز شریف اور ان کے اہل خانہ کے خلاف تحقیقات اور وزیراعظم کو نا اہل قرار دینے کی درخواستوں پر نواز شریف سمیت تمام فریقین کو نوٹس جاری کر دیے ہیں۔
چیف جسٹس انور ظہیر جمالی کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے جمعرات کو ان درخواستوں کی ابتدائی سماعت کرتے ہوئے سماعت دو ہفتوں کے لیے ملتوی کر دی۔
حزب مخالف کی جماعتوں پاکستان تحریک انصاف، جماعت اسلامی اور عوامی مسلم لیگ کے علاوہ وطن پارٹی نے بھی اس ضمن میں عدالت عظمیٰ سے رجوع کر رکھا تھا۔
تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان نے اپنی درخواستوں میں موقف اختیار کیا ہے کہ بدعنوانی کے الزامات کی وجہ سے وزیراعظم اور وزیرخزانہ اسحٰق ڈار کو ان کے سرکاری فرائض کی انجام دہی سے روکا جائے اور پاناما پیپرز میں بیرون ملک اثاثے رکھنے والوں میں وزیراعظم کے اہل خانہ کا نام آنے کے معاملے کی تحقیقات کی جائیں۔
جماعت اسلامی نے اپنی درخواست میں استدعا کی ہے کہ محصولات کے وفاقی ادارے (ایف بی آر) اور قومی احتساب بیورو کو ان تمام پاکستانی شہریوں اور کمپنیوں کی تحقیقات کرنے کا حکم دیا جائے جن کے نام پاناما پیپرز میں آئے ہیں۔
ابتدائی سماعت کے بعد عدالت کے باہر صحافیوں سے گفتگو میں تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان کا کہنا تھا کہ وہ عدالت عظمیٰ کے اس قدم کو خوش آئند قرار دیتے ہیں۔
"بادشاہ کو قانون کے نیچے لانے کے لیے یہ پہلا قدم ہے۔ اس کو ہم پاکستان کی جمہوریت کے لیے خوش آئند سمجھتے ہیں، ہم امید کرتے ہیں جب یہ کیس شروع ہو گا تو وہ چیزیں سامنے آئیں گی جو پاکستانی قوم سے اب تک چھپائی جاتی رہی ہیں۔"
اپریل میں پاناما پیپرز کے ہونے والے انکشافات کے بعد حکومت اور حزب مخالف نے اس کی تحقیقات کے لیے متفقہ طریقہ کار وضع کرنے کے لیے ایک کمیٹی بھی بنائی تھی لیکن اس کے تمام مشاورتی دور بے نتیجہ ثابت ہوئے جب کہ عمران خان نے اس معاملے پر وزیراعظم اور حکومت کے خلاف ملک گیر احتجاج بھی شروع کر رکھا ہے۔
جماعت اسلامی کے امیر سراج الحق نے عدالت عظمیٰ کے باہر صحافیوں سے گفتگو میں کہا کہ انھیں عدالت عظمیٰ پر اعتماد ہے۔
"ہماری خواہش ہے کہ یہ عدالت قوم کو مایوس نہ کرے، میں ایک پارٹی کی طرف سے نہیں بیس کروڑ عوام کی طرف سے آیا ہوں۔۔۔کسی سے کوئی ذاتی جھگڑا نہیں، خالص اور خالص اس قوم کے مستقبل کا مسئلہ ہے۔"
سماعت کے دوران وفاقی وزیر دفاع خواجہ آصف اور وزیر ریلوے خواجہ سعد رفیق بھی موجود تھے جنہوں نے بعد ازاں صحافیوں سے گفتگو میں کہا کہ وزیراعظم اور ان کی جماعت احتساب سے نہیں گھبراتے۔
خواجہ آصف کا کہنا تھا کہ " پاکستان کی سب سے بڑی عدالت میں ہم آج اسی طرح موجود ہیں جس طرح باقی آئینی اداروں کے سامنے ہم نے اپنے آپ کو سرنڈر کیا ہے۔ احتساب پاکستان مسلم لیگ ن کی حکومت کا بنیادی ستون ہے ہم کسی بھی احتساب سے نہیں گھبراتے۔"
عمران خان نے دو نومبر کو اسلام آباد میں ایک بڑے احتجاج کا اعلان کر رکھا ہے جس میں ان کے بقول وفاقی دارالحکومت کو "بند" کر دیا جائے گا۔
جمعرات کو بھی حکومتی ارکان نے تحریک انصاف کے سربراہ کے اس احتجاج پر انھیں تنقید کا نشانہ بنایا۔
وفاقی وزیر خواجہ سعد رفیق کا کہنا تھا کہ تحریک انصاف کو چاہیئے کہ اب وہ عدالت عظمیٰ میں آ گئے ہیں "آپ عدالت عظمیٰ کے فیصلے کا انتظار کریں۔"
تاہم عمران خان کا کہنا ہے کہ احتجاج ان کا جمہوری حق ہے اور سپریم کورٹ کی طرف سے ان درخواستوں کی سماعت سے ان کے احتجاج کو اور زیادہ "قوت" ملے گی۔