پاکستان کی اعلیٰ ترین عدالت نے لاپتہ افراد کے ایک مقدمے میں فرنٹیئر کور بلوچستان کے سربراہ میجر جنرل اعجاز شاہد کے خلاف توہین عدالت کا نوٹس واپس لے لیا ہے۔
پانچ دسمبر کو عدالت میں پیش نہ ہونے پر سابق چیف جسٹس افتخار محمد چودھری کی سربراہی میں مقدمے کی سماعت کرنے والے تین رکنی بینچ نے میجر جنرل اعجاز شاہد کو یہ نوٹس جاری کیا تھا۔
جمعرات کو اس مقدمے کی سماعت جسٹس ناصر الملک کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے شروع کی تو ایف سی بلوچستان کے سربراہ عدالت میں حاضر ہوئے۔
ان کے وکیل عرفان قادر نے بینچ کو بتایا کہ ان کے موکل نا سازی طبع کی وجہ سے عدالت میں پیش نہ ہو سکے تھے اور اب جب کہ وہ بینچ کے رو برو ہیں تو ان کی استدعا ہے کہ توہین عدالت کا نوٹس واپس لیا جائے۔
عدالت عظمیٰ نے یہ موقف تسلیم کرتے ہوئے نوٹس واپس لیا۔
عدالت کے استفسار پر میجر جنرل اعجاز شاہد نے بتایا کہ جبری گمشدگیوں میں ان کی فورس کے اہلکاروں کے ملوث ہونے کے الزامات کی تحقیقات کی جا رہی ہیں۔
فرنٹیئر کور بلوچستان کے سربراہ کے وکیل عرفان قادر نے عدالت کو بتایا کہ ایف سی نے بلوچستان سے لاپتہ کئی افراد کو بازیاب کروایا ہے اس لیے اُن کے بقول ان الزامات میں کوئی صداقت نہیں کہ جبری گمشدگیوں میں یہ سرکاری فورس بھی شامل ہے۔
عدالت نے ایف سی بلوچستان کے سربراہ کو ہدایت کی کہ وہ مقدمے کی آئندہ پیشی پر لاپتہ افراد سے متعلق تفصیلی رپورٹ بھی عدالت میں پیش کریں۔ اس اہم مقدمے کی آئندہ سماعت 15 جنوری کو ہو گی۔
رواں ماہ ہی سپریم کورٹ کے حکم پر حکومت نے 33 لاپتہ افراد میں سے 14 کو عدالت کے روبرو پیش کیا تھا اور ان کے بارے میں حکام کا موقف تھا کہ ان میں سے کوئی بھی فوج یا اس کے ادارے کی تحویل میں نہیں بلکہ یہ سب لوگ آزاد تھے جنہیں مختلف علاقوں سے ڈھونڈ کر عدالت میں پیش کیا گیا۔
بلوچستان سے لاپتہ ہونے والے افراد کے لواحقین اپنے عزیزوں کی جبری گمشدگیوں کا الزام فرنٹیئر کور پر عائد کرتے رہے ہیں جن کی حکام روز اول سے تردید کرتے آئے ہیں۔
پانچ دسمبر کو عدالت میں پیش نہ ہونے پر سابق چیف جسٹس افتخار محمد چودھری کی سربراہی میں مقدمے کی سماعت کرنے والے تین رکنی بینچ نے میجر جنرل اعجاز شاہد کو یہ نوٹس جاری کیا تھا۔
جمعرات کو اس مقدمے کی سماعت جسٹس ناصر الملک کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے شروع کی تو ایف سی بلوچستان کے سربراہ عدالت میں حاضر ہوئے۔
ان کے وکیل عرفان قادر نے بینچ کو بتایا کہ ان کے موکل نا سازی طبع کی وجہ سے عدالت میں پیش نہ ہو سکے تھے اور اب جب کہ وہ بینچ کے رو برو ہیں تو ان کی استدعا ہے کہ توہین عدالت کا نوٹس واپس لیا جائے۔
عدالت عظمیٰ نے یہ موقف تسلیم کرتے ہوئے نوٹس واپس لیا۔
عدالت کے استفسار پر میجر جنرل اعجاز شاہد نے بتایا کہ جبری گمشدگیوں میں ان کی فورس کے اہلکاروں کے ملوث ہونے کے الزامات کی تحقیقات کی جا رہی ہیں۔
فرنٹیئر کور بلوچستان کے سربراہ کے وکیل عرفان قادر نے عدالت کو بتایا کہ ایف سی نے بلوچستان سے لاپتہ کئی افراد کو بازیاب کروایا ہے اس لیے اُن کے بقول ان الزامات میں کوئی صداقت نہیں کہ جبری گمشدگیوں میں یہ سرکاری فورس بھی شامل ہے۔
عدالت نے ایف سی بلوچستان کے سربراہ کو ہدایت کی کہ وہ مقدمے کی آئندہ پیشی پر لاپتہ افراد سے متعلق تفصیلی رپورٹ بھی عدالت میں پیش کریں۔ اس اہم مقدمے کی آئندہ سماعت 15 جنوری کو ہو گی۔
رواں ماہ ہی سپریم کورٹ کے حکم پر حکومت نے 33 لاپتہ افراد میں سے 14 کو عدالت کے روبرو پیش کیا تھا اور ان کے بارے میں حکام کا موقف تھا کہ ان میں سے کوئی بھی فوج یا اس کے ادارے کی تحویل میں نہیں بلکہ یہ سب لوگ آزاد تھے جنہیں مختلف علاقوں سے ڈھونڈ کر عدالت میں پیش کیا گیا۔
بلوچستان سے لاپتہ ہونے والے افراد کے لواحقین اپنے عزیزوں کی جبری گمشدگیوں کا الزام فرنٹیئر کور پر عائد کرتے رہے ہیں جن کی حکام روز اول سے تردید کرتے آئے ہیں۔