سپریم کورٹ آف پاکستان میں ڈینئل پرل کیس کی سماعت کے دوران استغاثہ کے وکیل فاروق ایچ نائیک نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ ملزم احمد عمر سعید شیخ نے ڈینئل پرل کے قتل کی سازش تیار کی۔
فاروق ایچ نائیک نے کہا کہ ڈینئل پرل جوتے میں بم چھپا کر لے جانے والے ملزم رچرڈ ریڈ کے پیر و مرشد سے ملنا چاہتے تھے جس کے لیے انہوں نے پہلی بار راولپنڈی میں عمر سعید شیخ سے ملاقات کی تھی۔
سپریم کورٹ میں ڈینیل پرل قتل کیس کی سماعت ہوئی جہاں جسٹس مشیر عالم کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے سماعت کی۔
دوران سماعت استغاثہ یعنی سندھ حکومت کے وکیل فاروق ایچ نائیک نے دلائل کا آغاز کیا تو جسٹس طارق مسعود نے کہا کہ استغاثہ کے گواہ نے تسلیم نہیں کیا کہ اس کے سامنے ڈینئل پرل کے قتل کا منصوبہ بنا۔
فاروق ایچ نائیک نے کہا کہ یہ تسلیم شدہ حقیقت ہے گواہ کے سامنے سازش تیار نہیں ہوئی۔
سندھ حکومت کے وکیل فاروق ایچ نائیک نے کہا کہ احمد عمر سعید شیخ نے نام بدل کر محمد بشیر کے نام سے ڈینئل پرل سے ملاقات کی۔
فاروق نائیک نے اس وقت کے جاپانی نیوز ایجنسی سے وابستہ صحافی آصف محمود فاروقی کا بیان عدالت میں پڑھ کر سناتے ہوئے کہا کہ گواہ آصف محمود فاروقی پر جرح کی گئی، جس میں گواہ نے کہا مجھے علم نہیں ڈینئل پرل سی آئی اے یا موساد کے لیے کام کرتا تھا۔
جسٹس سردار طارق نے کہا کہ اگر راولپنڈی میں ہونے والی ملاقات سازش تھی تو آصف فاروقی کو ملزم بنانا چاہیے تھا۔
اس پر فاروق نائیک نے کہا کہ صحافی آصف فاروقی کو معلوم نہیں تھا کہ یہ شخص احمد عمر سعید شیخ ہے۔
سماعت کے بعد میڈیا سے بات کرتے ہوئے فاروق ایچ نائیک کا کہنا تھا کہ احمد عمر سعید شیخ نے مظفر کے نام سے ہوٹل میں کمرہ لیا اور بعد میں بشیر کے نام سے ملاقات کی۔ اس کا مطلب ہے کہ ڈینئل پرل کو اغوا کرنے کے حوالے سے سازش یہیں تیار کی گئی۔ احمد عمر سعید شیخ کے اقدام سے معاشرے میں خوف پھیلا۔
انہوں نے کہا کہ عدالت میں ہمارا مؤقف ہے کہ اس کیس میں شروع دن سے سازش کی گئی تھی اور اس سازش کا آغاز راولپنڈی میں ہی ہوا تھا۔ جہاں اکبر انٹرنیشنل ہوٹل کے کمرہ نمبر 411 میں ڈینئل پرل کی ملاقات احمد عمر سعید شیخ سے ہوئی۔ ہوٹل کا یہ کمرہ مظفر فاروقی کے نام سے لیا گیا تھا اور بعد میں ہوٹل کے میزبان نے بھی احمد عمر سعید شیخ کی شناخت مظفر کے نام سے کی تھی۔
سماعت کے حوالے سے سینئر صحافی ناصر اقبال نے کہا کہ فاروق ایچ نائیک نے اس قتل میں سازش کے حوالے سے اپنے نکات پیش کیے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ فاروق ایچ نائیک نے عدالت میں کہا کہ ڈینئل پرل جوتے میں بم چھپا کر لے جانے والے ملزم رچرڈ ریڈ کے پیر و مرشد پیر مبارک شاہ جیلانی سے ملاقات کرنا چاہتے تھے۔ پیر مبارک شاہ سے ملوانے کے لیے عارف نام کے ایک شخص نے کہا تھا جو آج تک مفرور ہے۔ راولپنڈی کے اکبر انٹرنیشنل ہوٹل میں ہونے والی ملاقات میں عارف نامی شخص نے خود کو بطور صحافی متعارف کرایا لیکن وہ آج تک اس کیس میں مفرور ہے اور اس کا کچھ پتا نہیں چل سکا۔
رچرڈ ریڈ کون تھا؟
رچرڈ ریڈ کو دنیا بھر میں شو بمبار کے طور پر بھی جانا جاتا ہے۔ 2001 میں امریکن ایئر لائن کی پیرس سے میامی جانے والی پرواز پر رچرڈ ریڈ جوتوں میں بم چھپا کر لے گئے تھے اور دوران پرواز دھماکہ کرنے کی کوشش کی تھی۔ لیکن مسافروں نے انہیں قابو کر لیا تھا جس کے بعد جہاز کو بوسٹن ایئر پورٹ پر لینڈ کیا گیا۔
دوران تفتیش رچرڈ ریڈ کے بارے میں معلوم ہوا کہ وہ پاکستان اور افغانستان کا کئی مرتبہ سفر کر چکے ہیں۔ اس دوران لاہور میں پیر مبارک شاہ جیلانی کے وہ مرید تھے اور ڈینئل پرل، رچرڈ ریڈ کے انہی پیر سے ملنا چاہتے تھے اور پیر مبارک سے ملنے کے لیے ہی ڈینئل پرل نے عمر سعید شیخ سے پہلی ملاقات کی تھی۔
فاروق ایچ نائیک نے کہا کہ یہ سازش، بین الاقوامی سازش تھی اور احمد عمر سعید شیخ نے اپنے بیان میں کہا کہ پاکستان کی حکومت اسے امریکہ کے حوالے کرنا چاہتی تھی اور اگر ایسا ہوتا تو امریکہ کا بھی وہی انجام ہوتا جو بھارت کے ساتھ ہوا تھا۔
احمد عمر سعید شیخ کو 1999 میں کٹھمنڈو سے اغوا ہونے والے جہاز کی کامیاب ہائی جیکنگ کے بعد بھارت کی قید سے رہا کرایا گیا تھا۔
سپریم کورٹ نے کیس کی مزید سماعت ایک دن کے لیے ملتوی کر دی ہے۔ فاروق نائیک اپنے دلائل جاری رکھیں گے۔
امریکی صحافی ڈینئل پرل کو 2002 میں اغوا کے بعد قتل کیا گیا تھا۔
اس کے بعد احمد عمر سعید شیخ اور ان کے ساتھیوں کو ڈینئل کے قتل کے الزام میں گرفتار کیا گیا تھا اور کئی سال کیسز چلنے کے بعد ٹرائل کورٹ نے سزائیں سنائیں۔
تاہم رواں سال سندھ ہائی کورٹ نے ملزمان کی اپیلیں منظور کرتے ہوئے احمد عمر سعید شیخ کی سزا میں کمی اور باقی ملزمان کو بری کر دیا تھا جس کے خلاف سندھ حکومت نے سپریم کورٹ میں اپیل دائر کی تھی۔
اس کیس میں ڈینئل پرل کے والدین نے بھی سندھ ہائی کورٹ کے فیصلے کے خلاف اپیل دائر کی ہے۔