پاکستان میں حکام نے پیر کو ایک مرکزی ٹی وی چینل 'اے آر وائی نیوز' کی نشریات کو معطل کردیا ہے۔ ٹی وی چینل کی معطلی کو ناقدین نے ملک میں میڈیا کی آزادی کو سلب کرنے کا ایک غیرقانونی قدم قرار دیا ہے۔
وائس آف امریکہ کے ایاز گل کی رپورٹ کے مطابق پاکستان الیکٹرانک میڈیا ریگولیٹری اتھارٹی (پیمرا) نے نجی کیبل آپریٹرز کو حکم دیا ہے کہ وہ اے آر وائی نیوز کی نشریات 'تاحکم ثانی' فوری طور بند کردیں۔
بعد ازاں ریگولیٹر نے نجی چینل کو 'اظہار وجوہ کا نوٹس' بھی بھیجا جس میں 'غلط، نفرت انگیز اور بغاوت کرنے والا مواد' نشر کرنے کا الزام لگایا گیا ہے۔
نوٹس میں یہ اعتراض کیا گیا ہے کہ اے آر وائی نیوز نے پیر کو اپنے ایک شو میں سابق وزیرِاعظم عمران خان کے ترجمان کا تبصرہ نشر کیا جو پیمرا کے بقول ''مسلح افواج کی صفوں کو بغاوت کی طرف اکسائے جانے کے مترادف تھا۔''
پیمرا کی جانب سے بھیجے گئے نوٹس میں کہا گیا کہ ''آپ کے نیوز چینل پر اس طرح کا مواد نشر ہونا، مواد میں کمزور ادارتی پالیسی کو ظاہر کرتا ہے یا لائسنس یافتہ (ادارہ) جان بوجھ کر ایسے افراد کو اپنا پلیٹ فارم فراہم کرنے میں ملوث رہا ہے جو اپنے ذاتی مفاد کے لیے ریاستی اداروں کے خلاف بغض اور نفرت پھیلانے کا ارادہ رکھتے ہیں۔''
خیال رہے کہ عمران خان کی جماعت پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) وزیرِاعظم شہباز شریف کی حکومت پر ایک سوشل میڈیا مہم کو اسپانسر کرنے کا الزام لگاتی ہے جس کا مقصد اپوزیشن جماعت کو فوج مخالف ثابت کرنا ہے۔
دوسری جانب ٹی وی چینل، قانونی ماہرین، صحافیوں اور پی ٹی آئی رہنماؤں نے پیمرا کے الزامات کو غیر قانونی قرار دے کر مسترد کردیا ہے۔
چینل کو سچ دکھانے پر بند کیا گیا: سی ای او
اے آر وائی نیوز کے چیف آپریٹنگ آفیسر (سی ای او) سلمان اقبال نے ٹوئٹر پر اپنے بیان میں کہا کہ ان کے چینل کو اس لیے بند کیا گیا کیوں کہ ان کے بقول انہوں نے سچ رپورٹ کیا۔
اے آروائی نیوز کے سینئر وائس پریذیڈنٹ عماد یوسف نے وائس آف امریکہ کے نمائندے عاصم علی رانا سے بات کرتے ہوئے کسی سازش کے تحت فوج مخالف بیان چلنے کی مکمل تردید کی۔
اُن کا کہنا تھا کہ اے آر وائی نیوز کی ایک خبر پر پی ٹی آئی کے شہباز گل نے گفتگو کی جو ان کا ذاتی موؐقف ہے۔
اُن کا کہنا تھا کہ ایسا پہلی بار نہیں ہو رہا، جب بھی کسی سیاسی جماعت سے متعلق کوئی خبر آتی ہے تو اس کا مؤقف جاننے کے لیے متعلقہ جماعت کے کسی نمائندے سے بات کی جاتی ہے۔ اس روز بھی ایسا ہی ہوا، شہباز گل نے جو بات کی وہ اس کے ذمے دار ہیں۔ چینل انتظامیہ کو اس معاملے کا ذمہ دار ٹھہرانا مناسب نہیں ہے۔
عماد یوسف کا کہنا تھا کہ 'اے آر وائی' کو ہمیشہ سے پاکستان کی افواج سے قریب سمجھا جاتا ہے اور ہم فورسز کے خلاف کوئی منفی بات کرنے کا سوچ بھی نہیں سکتے۔
انہوں نے وزیرداخلہ رانا ثناءاللہ کی طرف سے کسی سازش میں شامل ہونے کےالزام پر کہا کہ چینل پاکستان مخالف کسی سازش کا حصہ نہیں ہے۔
وکیل اور قانونی تجزیہ کار محمد احمد پنسوٹا نے پیمرا کی جانب سے 'بغیر کسی قانونی وضاحت' کے اے آر وائی نیوز کو معطل کیے جانے کی مذمت کی ہے۔
اپنے ایک ٹویٹ میں انہوں نے کہا کہ آزادیِ صحافت ایک آئینی حق ہے جس سے ریاست سمیت کسی کو بھی چھیڑ چھاڑ نہیں کرنی چاہیے۔
ناقدین کا کہنا ہے کہ بغاوت کے الزامات طاقت ور فوجی ادارے پر تنقید کرنے والے میڈیا اداروں اور صحافیوں کو ڈرانے اور ہراساں کرنے کے لیے اکثر استعمال کیے جاتے ہیں۔
پاکستان میں پرائم ٹائم ٹیلی ویژن اینکر مبشر زیدی نے کسی بھی ٹی وی چینل کو معطل کرنے پر کہا کہ اس طرح کی کارروائی حالیہ عدالتی احکامات کی خلاف ورزی ہے۔
انہوں نے ٹویٹ میں کہا کہ '' اس صورتِ حال میں نوٹس سے قبل شٹ ڈاؤن کیا گیا۔ اس کارروائی کو عدالتیں جلد یا بدیر غیرقانونی قرار دے دیں گی۔''
علاوہ ازیں میڈیا پر نظر رکھنے والے اداروں کو یہ بھی شبہ ہے کہ پاکستان میں صحافیوں کو ڈرانے اور ہراساں کرنے کی حالیہ مہم کے پیچھے فوج کا ہاتھ ہے۔ تاہم حکومت اور فوج ان الزامات کو مسترد کرتے ہیں۔
سوشل میڈیا پر ردِ عمل
پاکستان تحریک انصاف کے ٹوئٹر اکاؤنٹ سے لکھا گیا کہ ''امپورٹڈ حکومت کا میڈیا سیل ارشد شریف کی جانب سے بے نقاب کیا گیا جس کے بعد انہوں نے اے آر وائی کو بند کرنے کا فیصلہ کیا۔"ٹویٹ میں 'اے آر وائی نیوز بحال کرو' کا ہیش ٹیگ استعمال کرتے ہوئے چینل کو قوم کی آواز بھی قرار دیا۔
پاکستان مسلم لیگ (ن) نے اپنے ٹوئٹر اکاؤنٹ سے ٹویٹ میں لکھا کہ پوری دنیا نے دیکھا کہ کس طرح پی ٹی آئی کے سوشل میڈیا سیل نے جان سے جانے والے فوجی جوانوں کے خلاف تضحیک آمیز مہم چلائی۔ عمران خان کا چہرہ قوم کے سامنے لانے کے لیے مسلم لیگ (ن) کو کسی بھی طرح کی مہم چلانے کی ضرورت نہیں۔
خاتون صحافی غریدہ فاروق نے ایک ٹویٹ میں کہا کہ یہ پہلی بار نہیں کہ اے آر وائی نے ایسی منفی، قابلِ مذمت مہم چلائی۔ میڈیا ادارے کی آڑ میں ملک مخالف، صحافتی اصولوں کو پامال کرنے کی اجازت کسی کو نہیں ہونی چاہیے۔
انہوں نے لکھا کہ اے آر وائی نے جو مہم آج چلائی اور جس طرح وہ طویل عرصے سے ملک مخالف غیرقانونی عمل میں مصروف ہے، وقت آگیا ہے کہ قانون حرکت میں آئے۔
سابق رکن پنجاب اسمبلی ملیکا بخاری نے اپنے ٹویٹ میں کہا کہ حکومت کا ملک کے مرکزی اور معروف چینل اے آر وائی نیوز کو معطل کرنا آزادیٔ اظہار پر شرم ناک پابندی ہے۔
سابق وزیرِانسانی حقوق شیریں مزاری نے کہا کہ ''امپورٹڈ حکومت نے اے آر وائی نیوز کو زبردستی اسکرینوں سے ہٹا دیا کیوں کہ ان کے ٹولے میں کوئی جمہوری روایت نہیں ہے۔''
ان کا کہنا تھا کہ ''یہ نااہل اور بدعنوان صرف امریکی حکومت کی تبدیلی اقتدار کی سازش ہے۔''
خیال رہے کہ حالیہ ہفتوں میں ملکی سیاست میں فوج کے مبینہ کردار پر سوال اٹھانے پر کئی پاکستانی صحافیوں کے خلاف مقدمات درج کیے گئے۔
رپورٹرز ودآؤٹ بارڈرز (آر ایس ایف) نے گزشتہ ماہ پاکستان کی اعلیٰ فوجی قیادت کو میڈیا کو مزید ہراساں کرنے کے خلاف خبردار کرتے ہوئے کہا تھا کہ اس طرح کے حربے پاکستان میں جمہوریت کو 'سنگین نقصان' پہنچائیں گے۔
یاد رہے کہ سابق وزیرِاعظم عمران خان یہ الزام لگاتے ہیں کہ امریکہ نے شریف برادران اور دیگر اپوزیشن جماعتوں کے ساتھ مل کر تحریک عدم اعتماد کے ذریعے انہیں اقتدار سے باہر کیا۔ جب کہ واشنگٹن سختی سے ان الزامات کو مسترد کرتا ہے۔