ایران اور مغربی طاقتوں کے درمیان 2015 کے جوہری معاہدے کی بحالی کے لیے واشنگٹن اور تہران کے درمیان بالواسطہ مذاکرات کے حالیہ دور کے بعد ایک حتمی مسودہ تیار کر لیا گیا ہے۔
یورپی یونین نے پیر کے روز بتایا کہ ویانا میں امریکی اور ایرانی عہدے داروں کے درمیان بالواسطہ مذاکرات چار روز تک جاری رہنے کے بعد ختم ہو گئے ہیں، جس کے بعد 2015 کے جوہری معاہدے کی بحالی کے لیے ایک حتمی مسودہ تیار کر لیا گیا ہے۔
یورپی یونین کی خارجہ پالیسی کے سربراہ جوزف بوریل نے اپنی ایک ٹویٹ میں کہا ہے کہ جن معاملات پر بات چیت کی جا سکتی تھی، ان پر گفتگو ہو چکی ہےاور اب وہ حتمی مسودے میں موجود ہیں۔ تاہم ہر تکنیکی مسئلے اور ہر پیراگراف کا انحصار سیاسی فیصلے پر ہے ، جس پر متعلقہ حکومتوں کو غور کرنے کی ضرورت ہے۔
ایک ایسے موقع پر جب یورپی یونین، ایران اور امریکہ کے عہدے دار ویانا سے رخصت ہو رہے تھے، بوریل کا مزید کہنا تھا کہ "اگر یہ جوابات مثبت ہیں تو ہم اس معاہدے پر دستخط کر سکتے ہیں۔"
اس سے قبل یورپی یونین کے ایک سینئر اہل کار نے صحافیوں کو بتایا تھا کہ15 ماہ سے جاری بات چیت کے بعد تیار کیے جانے والے حتمی مسودے میں اب مزید کوئی تبدیلی نہیں کی جا سکتی۔ اس لیے وہ فریقین سے چند ہفتوں کے اندر اس مسودے پر حتمی فیصلے کی توقع رکھتے ہیں۔
سینئر اہل کار کا مزید کہنا تھا کہ یہ مسودہ ایک پیکیج کی شکل میں ہے۔ آپ یہ نہیں کر سکتے کہ صفحہ نمبر 20 سے تو اتفاق کریں لیکن صفحہ نمبر 50 سے متفق نہ ہوں۔ آپ کو ہاں یا نہ میں جواب دینا ہے۔
امریکی محکمۂ خارجہ کے ایک ترجمان نے کہا ہے کہ واشنگٹن یورپی یونین کی تجاویز کی بنیاد پر 2015 کے جوہری معاہدے کی بحالی کے لیے فوری طور پر ایک معاہدے تک پہنچنے کے لیے تیار ہے۔ اس معاہدے کو باضابطہ طور پر 'جوائنٹ کمپری ہینسو پلان آف ایکشن' کہا جاتا ہے۔
امریکی ترجمان کا مزید کہنا ہے کہ ایران بار بار یہ کہتا رہا ہے کہ وہ 'جوائنٹ کمپری ہینسو پلان آف ایکشن' کے باہمی نفاذ کی جانب واپسی کے لیے تیار ہے۔ لیکن دیکھنا یہ ہے کہ تہران کے اقدامات ان کے الفاظ سے مطابقت رکھتے ہیں؟
ایرانی حکام کا کہنا تھا کہ وہ یورپی یونین کی تجاویز کو حتمی نہیں سمجھتے، مشاورت کے بعد یورپی یونین کو اپنے اضافی خیالات اور تحفظات سے آگاہ کریں گے۔
ایران نے امریکہ اور دیگر مغربی طاقتوں سے یہ مطالبہ بھی کیا ہے کچھ چیزوں کو معاہدے کے دائرہ کار سے خارج کر دیا جائے۔
مثال کے طور پر ایران کا اصرار ہے کہ جوہری توانائی کی بین الاقوامی ایجنسی، جو اقوام متحدہ کے جوہری نگران ادارے کے طور پر فرائض سرانجام دیتی ہے، اپنے ان دعوؤں سے دست بردار ہو جائے کہ ایران اپنی غیر اعلانیہ جوہری تنصیبات میں یورینیم سے متعلق سوالات کی مکمل وضاحت فراہم کرنے میں ناکام رہا ہے۔
واضح رہے کہ یورپی یونین ایران اور امریکہ کے درمیان بالواسطہ مذاکرات مربوط کر رہی ہے اور ایسا لگتا ہے کہ ہر فریق سمجھوتہ کرنے کی ذمہ داری دوسرے پر ڈالنے کی کوشش کر رہا ہے۔
ایران اور چھ عالمی طاقتوں نے 2015 کا بنیادی جوہری معاہدہ کیا تھا جس کے تحت ایران نے اپنے جوہری پروگرام کو محدود کرنے پر اتفاق کیا تھا جس کا مقصد جوہری ہتھیاروں کی تیاری کے لیے جوہری مواد کے استعمال کو مشکل تر بنایا جاسکے۔ جس کے بدلے میں ایران پر امریکہ، یورپی یونین اور اقوامِ متحدہ کی پابندیوں میں نرمی کا وعدہ کیا گیا تھا۔
ایران جوہری ہتھیاروں کے حصول سے انکار کرتا ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ تہران کا جوہری پروگرام توانائی کے حصول اور پرامن مقاصد کے لیے ہے۔
سن 2018 میں اس وقت کے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ ایران کے ساتھ جوہری معاہدے سے الگ ہو گئے تھے اور انہوں نےایران کی تیل کی برآمدات پر سخت پابندیاں نافذ کر دی تھیں جو ایران کی برآمدات کی آمدنی اور سرکاری محصولات کے حصول کا ایک بڑا ذریعہ ہے۔
اس کےردعمل میں تہران نے،جس کا دعویٰ ہے کہ اس کا جوہری پروگرام پر امن مقاصد کے لیے ہے، تقریباً ایک سال کے بعد 2015 کے معاہدے کی کئی طرح سے خلاف ورزی شروع کر دی جس میں یورینیم کی افزودگی کا درجہ بڑھانا بھی شامل ہے۔
ایران نے یورینیم کو 60 فی صد تک افزودہ کر لیا جب کہ معاہدے میں اسے تین اعشاریہ 67 فی صد تک افزودگی کی اجازت دی گئی تھی۔ یاد رہے کہ جوہری ہتھیار بنانے کے لیے یورینیم کو 90 فی صد تک افزودہ کرنے کی ضرورت ہوتی ہے۔
امریکی صدر جو بائیڈن جنوری 2021 میں اپنا عہدہ سنبھالنے کے بعد سے ایران کے ساتھ 2015 کے جوہری معاہدے کو بحال کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ اس مقصد کے لیے ویانا میں ایران اور امریکہ کے درمیان بالواسطہ مذاکرات ہو رہے ہیں کیوں کہ ایران امریکہ کے ساتھ براہِ راست مذاکرات کرنے سے انکار کرتا ہے۔
ایران نے یہ ضمانت حاصل کرنے کی بھی کوشش کی ہے کہ اگر اس معاہدے کو بحال کیا گیا تو مستقبل کا کوئی امریکی صدر اس سے دست بردار نہیں ہو گا جیسا کہ ٹرمپ 2018 میں معاہدے سے الگ ہو گئے تھے۔ تاہم واشنگٹن ایسی یقین دہانیاں فراہم نہیں کر سکتا کیوں کہ اس معاہدے کی حیثیت قانونی طور پر پابند معاہدے کی نہیں ہے۔
ایران کے سرکاری میڈیا کی رپورٹس کے مطابق ایرانی وزیر خارجہ حسین امیر عبداللہان نے یورپی یونین کی خارجہ پالیسی کے سربراہ بوریل کو ایک فون کال میں کہا ہے کہ حتمی معاہدے میں ایرانی عوام کے حقوق اور مفادات کے تحفظ کو یقینی بنانے اور پابندیوں کے موثر اور مستحکم خاتمے کی ضمانت ہونی چاہیے۔
رپورٹ کا کچھ مواد خبر رساں ادارے ' ایسوسی ایٹڈ پریس' سے حاصل کیا گیا ہے۔