پاکستان کے شمال مغربی صوبہ خیبر پختونخواہ میں شدت پسندوں کے ساتھ جھڑپ میں تین مشتبہ عسکریت پسند اور ایک پولیس اہلکار ہلاک ہو گیا۔
پولیس حکام کے مطابق صوابی کے علاقے شیوا کلی میں دہشت گردوں کی موجودگی پر کارروائی کے لیے جانے والے اہلکاروں کی شدت پسندوں سے جھڑپ ہوئی۔
صوابی کے ضلعی پولیس افسر سجاد خان نے وائس آف امریکہ کو تفصیلات بتاتے ہوئے کہا کہ اطلاع ملی تھی کہ دہشت گرد ایک گھر میں چھپے ہوئے ہیں جس پر وہاں پولیس بھیجی گئی جن سے شدت پسندوں کا مقابلہ شروع ہو گیا۔
"ہمارے کچھ لوگ زخمی ہوئے تو پھر پشاور اور مردان سے مزید نفری منگوائی گئی، تین دہشت گرد اس میں مارے گئے ہمارا ایک جوان اس میں ہلاک ہوا اور نو زخمی ہوئے۔"
مقامی لوگوں اور پولیس کے مطابق فائرنگ کا تبادلہ کئی گھنٹے تک جاری رہا۔
کالعدم تحریک طالبان پاکستان نے ذرائع ابلاغ کو بھیجے گئے پیغام میں بتایا کہ مرنے والوں میں ان کے ساتھی سلمان عرف ساجد اور بلال عرف ارشد شامل ہیں۔
صوابی میں اس سے قبل بھی شدت پسندوں کی پولیس سے جھڑپیں ہوتی رہی ہیں اور یہاں شدت پسندوں سے حمایت رکھنے والوں کے بارے میں بھی اطلاعات سامنے آتی رہتی ہیں۔
یہ امر قابل ذکر ہے کہ شدت پسند تنظیم تحریک طالبان کے نائب امیر شیخ خالد حقانی کا تعلق بھی صوابی سے ہی ہے۔
گزشتہ دسمبر میں پشاور کے آرمی پبلک اسکول پر طالبان شدت پسندوں کے حملے کے بعد ملک میں ان شدت پسندوں کے خلاف سکیورٹی فورسز کی کارروائیوں میں تیزی دیکھی جا رہی ہے۔