رسائی کے لنکس

دہشت گردوں سے مذاکرات پر سیاسی حلقوں میں ابہام


حال ہی میں جمعیت علماء اسلام کے سربراہ مولانا سمیع الحق نے کہا کہ ملک کے قبائلی علاقوں میں چھپے طالبان شدت پسند پاکستان کے آئین کو تسلیم کرتے ہیں اور مذاکرات کے آغاز سے پہلے وہ اپنے تحفظ کی حکومت سے یقین دہانی چاہتے ہیں۔

پاکستان میں نواز شریف کی حکومت کی جانب سے مسلسل اس بات کا اعادہ کیا گیا ہے کہ دہشت گردی کے خاتمے کے لیے شدت پسندوں سے مذاکرات کیے جائے گے اور اس پالیسی کی حمایت پاکستانی فوج کی جانب سے بھی کی گئی۔

تاہم بات چیت کا عمل تاحال شروع نہیں کیا گیا بلکہ ذرائع ابلاغ پر سیاسی و مذہبی رہنماؤں کے اس بارے میں مختلف بیانات اور بعض اوقات شدت پسندوں کے مطالبات بھی ان کی زبانی سنے گئے۔

حال ہی میں جمعیت علماء اسلام کے سربراہ مولانا سمیع الحق نے صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ملک کے قبائلی علاقوں میں چھپے طالبان شدت پسند پاکستان کے آئین کو تسلیم کرتے ہیں اور مذاکرات کے آغاز سے پہلے وہ اپنے تحفظ کی حکومت سے یقین دہانی چاہتے ہیں۔

’’طالبان آئین مانتے ہیں وہ آپ کو نہیں مانتے وہ کہتے ہیں آئین کو نافذ کرو ان کا معاملہ آئین کو نفاذ کا ہے۔ آئین کی سینکٹروں دفعات ہیں جو اسلام کی گارنٹی دیتی ہیں۔‘‘

کالعدم شدت پسند تنظیم تحریک طالبان پاکستان کے سرکردہ رہنما کئی بار اپنے وڈیو بیانات میں بھی ملک کے آئین، عدلیہ اور جمہوری نظام کو تسلیم نا کرتے ہوئے ان کے خلاف جنگ کا اعلان کر چکے ہیں۔

گزشتہ ماہ کے اوائل میں ایک مشتبہ امریکی ڈرون حملے میں القاعدہ سے منسلک پاکستانی طالبان کمانڈر حکیم اللہ محسود مارا گیا تھا جس پر حکومت نے احتجاج کرتے ہوئے کہا تھا کہ اس حملے سے شدت پسندوں سے مجوزہ امن مذاکرات سبوتاژ ہوئے ہیں۔

حزب اختلاف کی سب سے بڑی جماعت پاکستان پیپلز پارٹی کے قانون ساز سعید غنی نے وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے مولانا سمیع الحق کے بیان کو عوام میں طالبان کے تشخص کو بہتر بنانے کی کوشش قرار دیا۔

’’وہ کہتے ہیں کہ ایک اسلامی ریاست ہونی چاہیے جس کی وہ سمجھتے ہیں کہ کوئی حدود نہیں ہوتی۔ اس میں وہ افغانستان، پاکستان اور کچھ اور چھوٹے ممالک کو بھی شامل کرتے ہیں اور پھر یہاں سے بڑھ کر پوری دنیا پر۔‘‘

سینیٹر غنی کا کہنا تھا کہ ’’جب وہ آپ کے فوجیوں، سپاہیوں کو مارتے ہیں، جھنڈے جلاتے ہیں اور جیلوں سے قیدی چھڑا کر لے جاتے ہیں تو ظاہر ہے کہ وہ آپ کے ملک کے آئین و قانون کو تسلیم نہیں کرتے۔‘‘

ان کا کہنا تھا کہ مرکزی حکومت اور چند سیاسی و مذہبی جماعتیں دہشت گردی سے نمٹنے کے معاملہ پر اب بھی ابہام کا شکار ہیں۔

’’طالبان کی طرف سے جو مطالبے آرہے ہیں ان کے جواب میں کہیں نہیں ہے کہ وہ ریاست کی رٹ تسلیم کریں گے۔ آپ انہیں بس قائل کرنے کی کوشش کررہے ہیں کہ آپ دہشت گردی نا کریں۔ ان کے مقاصد تبدیل کرنے کی کوشش نہیں کی جارہی جو کہ بنیادی غلطی ہے۔ کچھ وقت کے لیے شاید دہشت گردی کے واقعات رک جائیں مگر اس کے لیے انہیں بہت کچھ دینا ہوگا اور وہ دیرپا بھی نا ہوگا۔‘‘

حکومت کی جانب سے اس بات کا اعلان کیا جا چکا ہے کہ قومی سلامتی پالیسی تیار ہو چکی ہے تاہم اس کے خدوخال عوام اور ان کے نمائندوں کے سامنے آنا ابھی باقی ہے۔

جبکہ بعض مبصرین کا کہنا ہے کہ دہشت گردی کا مسئلہ حل نا ہونے کی صورت میں آئندہ سال افغانستان سے غیر ملکی افواج کے انخلاء کے بعد پاکستان کی سلامتی سے متعلق مشکلات مزید سنگین ہو سکتی ہیں۔
XS
SM
MD
LG