رسائی کے لنکس

مذاکرات کے مستقبل پر مبصرین بدستور 'غیریقینی' کا شکار


فائل فوٹو
فائل فوٹو

بعض مبصرین کا خیال ہے کہ حکومت ضرورت سے زیادہ لچک کا مظاہرہ کر رہی ہے جس سے اس کی پوزیشن بظاہر کمزور محسوس ہوتی ہے۔

پاکستان کی حکومت کی طرف سے طالبان کے ساتھ مذاکرات میں پیش رفت کے لیے مزید طالبان قیدیوں کی رہائی کے اعلان کے بعد بھی مبصرین اس مذاکراتی عمل کے مستقبل کے بارے میں غیر یقینی کا اظہار کر رہے ہیں۔

ہفتہ کو سرکاری کمیٹی اور طالبان کے نامزد کردہ رابطہ کاروں سے ملاقات کے بعد وفاقی وزیرداخلہ چودھری نثارعلی خان نے کہا تھا کہ ایک درجن سے زائد طالبان قیدی رہا کیے جائیں گے اور ان میں ایسے افراد بھی شامل ہیں جن کا نام طالبان کی طرف سے حکومت کو فراہم کی گئی فہرست میں شامل ہے۔

سینیئر تجزیہ کار اور حکومت کی مذاکراتی کمیٹی کے سابق رکن رحیم اللہ یوسفزئی نے اتوار کو وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ یہ تمام معاملات ابھی ابتدائی مراحل کے ہیں اور ابھی بہت کچھ ہونا باقی ہے جس کے بعد ہی مذاکرات میں پیش رفت یا اس میں کامرانی و ناکامی کے بارے میں کچھ کہا جاسکتا ہے۔

"ابھی تو بات چیت بڑے معاملات پر شروع ہی نہیں ہوئی ابھی تو آپ دیکھ رہے ہیں کہ غیر عسکری قیدیوں کی رہائی کی بات ہورہی ہے۔ امن یا کوئی محفوظ جگہ جہاں بات ہوسکے اس کی بات ہورہی ہے ابھی تو میرے خیال میں کچھ کہنا کہ کامیاب ہوں گے یا ناکام ہوں گے قبل از وقت ہے۔ کامیابی کے لیے بھی کافی رکاوٹیں ہیں اور راستے میں کافی مشکلات پیش آئیں گی، میرے خیال میں فی الحال کامیابی کے امکانات اتنے نہیں جنتا ہونے چاہیے تھے۔ میرے خیال میں منزل ابھی دور ہے۔"

چودھری نثار کی طرف سے بھی یہ کہا جا چکا ہے کہ دوسرے فریق کو بھی اب کچھ لوگ رہا کرنے چاہیئں۔

اس بارے میں طالبان کے نامزد کردہ اعلیٰ رابطہ کار مولانا سمیع الحق نے صحافیوں سے گفتگو میں کہا تھا کہ وہ طالبان سے ملاقات میں "کہیں گے کہ کچھ اقدامات ہوئے ہیں یا ہو رہے ہیں تو خیرسگالی کے طور پر آپ (طالبان) بھی کچھ پیشکش کریں پیش رفت کریں۔"

تاہم بعض مبصرین کا خیال ہے کہ حکومت ضرورت سے زیادہ لچک کا مظاہرہ کر رہی ہے جس سے اس کی پوزیشن بظاہر کمزور محسوس ہوتی ہے۔

قبائلی علاقوں کے سابق سیکرٹری اور تجزیہ کار محمود شاہ نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا ان کے نزدیک طالبان اب بھی مذاکرات کو وقت حاصل کرنے کے حربے کے طور پر ہی استعمال کر رہے ہیں۔

"جو انھوں نے فائر بندی میں توسیع کی تھی اس میں سے بھی پانچ چھ روز گزر گئے ہیں۔۔۔۔مجھے نظر نہیں آرہا کہ یہ حکومت جو ہے کامیاب ہورہی ہے یا اپنی شرائط پر اس مسئلے کو جو ختم کرنے کی ہم بات کر رہے ہیں ہم کہہ رہے ہیں کہ جو دہشت گرد نیٹ ورک ہے یہ تمام ختم ہو اور یہ کس طریقے سے ختم ہو اس تک تو بات ہی نہیں پہنچی۔"

حکومت میں شامل عہدیدار بارہا یہ کہہ چکے ہیں کہ ملک میں موثر اور دیرپا امن کے لیے مذاکرات کو ایک موقع دیا جارہا ہے اور اس کی ناکامی پر طاقت کے استعمال سے گریز نہیں کیا جائے گا۔
XS
SM
MD
LG