رسائی کے لنکس

طالبان کی مذاکرات پر مشروط آمادگی کی اطلاعات


وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان نے اتوار کو صحافیوں سے گفتگو میں حکومت پر ہونے والی تنقید کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ سیاسی جماعتیں ’’پوائنٹ اسکورنگ کی بجائے قوم کو انتشار سے بچائیں‘‘۔

پاکستان کے شمال مغرب میں سیکورٹی فورسز پر ایک جان لیوا حملے کی ذمہ داری قبول کرتے ہوئے مقامی ذرائع ابلاغ کے مطابق کالعدم شدت پسند تنظیم تحریک طالبان پاکستان نے اتوار کو حکومت سے امن مذاکرات شروع کرنے پر آمادگی کا اظہار کیا ہے۔

تنظیم کے مرکزی ترجمان شاہد اللہ شاہد سے منسوب بیان میں کہا گیا کہ بات چیت کا یہ عمل تب ہی ممکن ہوگا جب نواز شریف انتظامیہ یہ ثابت کرے کہ وہ مذاکرات سے متعلق با اختیار اور مخلص ہے۔

تاہم کئی سیاست دانوں اور مبصرین کا کہنا ہے کہ حکومت کی دہشت گردی سے نمٹنے سے متعلق حکمت عملی اب بھی مبہم ہے۔ حزب اختلاف کی جماعت عوامی نیشنل پارٹی کے سینئیر رہنما اور قانون ساز افراسیاب خٹک کا وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہنا تھا کہ دہشت گردی سے متعلق نواز حکومت کے موقف سے جنگجوؤں کے حوصلے ان کے بقول نا صرف بڑھے ہیں بلکہ انہیں دوبارہ منظم ہونے کا بھی موقع فراہم ہوا ہے۔

’’کارروائی ہو یا مذاکرات یہ بحث بے معنی ہے۔ اصل بات ہے کہ آپ کرنا کیا چاہتے ہیں۔ انتہا پسندی و دہشت گردی کو ختم کرنا چاہیئے ہیں یا دہشت گردوں کو راضی رکھنا چاہتے ہیں۔ بظاہر تو ایسا لگتا ہے کہ یہ انہیں راضی رکھنا چاہتے ہیں تو پھر ایسی صورت میں ریاست کو اس کا خمیازہ ادا کرنا ہوگا۔‘‘

گزشتہ سال ستمبر میں سیاسی اور فوجی قائدین نے حکومت کو شدت پسندوں سے مذاکرات کا اختیار دیا تاہم عسکریت پسندوں کی طرف سے بات چیت کے شروع ہونے کے دعوؤں اور خبروں کی مسلسل تردید اور ان کی ملہک کارروائیاں جاری رہیں۔ نومبر میں ایک مشتبہ امریکی ڈرون حملے میں طالبان کے سربراہ حکیم اللہ محسود کی ہلاکت کے بعد حکومت کا کہنا تھا کہ اس حملے سے مجوزہ مذاکرات سبوتاژ ہوئے ہیں۔

صوبہ خیبرپختوانخواہ کی حکمران جماعت اور وفاقی پارلیمان کی تیسری بڑی جماعت تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان کہتے ہیں کہ نواز حکومت شدت پسندوں سے مذاکرات کے لیے سنجیدہ ہی نہیں۔

’’اگر میں وزیراعظم ہوتا تو ڈائیلاگ کی خود میں قیادت کرتا۔ اپنا وفد بناتا۔ باہر کے دورے نا کرتا۔ سب سے پہلے کوشش کرتا اس ملک میں امن ہو۔ میاں (نواز شریف) صاحب آپ دنیا کے چکر لگا رہے ہیں۔ کبھی ادھر، کبھی ادھر۔ جنگ تو پاکستان مین ہورہی ہے۔ ملک تو ہمارا تباہ ہورہا ہے۔‘‘

وزیراعظم نواز شریف اور ان کی حکومت میں شامل عہدیدار کئی بار کہہ چکے ہیں کہ مذاکرات کے ذریعے شدت پسندی پر قابو پانا حکومت کی اولین ترجیح ہے اور اسی غرض سے حال ہی میں ایک مذہبی و سیاسی رہنما مولانا سمیع الحق کو بات چیت کے عمل کی راہ ہموار کرنے کا ذمہ داری بھی سونپی گئی۔

بعض مبصرین کا کہنا ہے کہ اتوار کو بنوں حملے میں 20 سیکورٹی اہلکاروں کی ہلاکت کے بعد شدت پسندوں کی طرف سے مذاکرات کی مشروط پیش کش ایک حربہ بھی ہو سکتا ہے۔ تجزیہ کار رستم شاہ مہمند کا کہنا تھا۔

’’انہوں نے شاید اس خیال سے بال حکومت کے کورٹ میں پھینک دیا کہ سیکورٹی فورسز کی اتنی اموات کے بعد تو مذاکرات شروع نا ہوں گے۔ لیکن حکومت اس کا جواب ایسے دی سکتی ہے کہ ہم تیار ہیں جنوبی وزیرستان میں مذاکرات کے لیے۔ تو اگر وہ راضی ہوگئے تو اس کا مطلب وہ تنگ آگئے ہیں اس صورتحال سے اور بات چیت چاہتے ہیں۔‘‘

تاہم وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان نے اتوار کو صحافیوں سے گفتگو میں حکومت پر ہونے والی تنقید کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ سیاسی جماعتیں ’’پوائنٹ اسکورنگ کی بجائے قوم کو انتشار سے بچائیں‘‘۔

انھوں نے کہا کہ حکومت اڑھائی ماہ سے مذاکراتی عمل کو آگے بڑھانے کی کوشش کر رہی ہے۔

ادھر سرکاری ذرائع ابلاغ ابلاغ کے مطابق بنوں حملے کے بعد وزیراعظم نے سوئٹزرلینڈ کا اپنا سرکاری دورہ منسوخ کردیا ہے۔
XS
SM
MD
LG