پاکستان میں اعلیٰ حکام نے کہا ہے کہ حالات و واقعات اس امرکی نشاندہی کررہے ہیں کہ جنوبی وزیرستان میں کیے گئے ایک حالیہ ڈرون حملے میں ہلاک ہونے والوں میں امریکہ کو مطلوب القاعدہ کا لیڈر الیاس کشمیری بھی شامل تھا۔اس خطرناک دہشت گرد کی ہلاکت کی اطلاعات ایک روز قبل منظر عام پر آئی تھیں۔
امریکہ نے الیاس کشمیری کو گرفتار یا ہلاک کرنے والے کے لیے پچاس لاکھ ڈالر کا نقد انعام مقرر کررکھا ہے تاہم امریکی حکام نے اُس کی ہلاکت کی خبروں پر تاحال کوئی تبصرہ نہیں کیا ہے۔
پاکستانی وزیر داخلہ رحمن ملک نے برطانوی نیوز ایجنسی رائٹرز سے گفتگو کرتے ہوئے کہا ہے کہ جنوبی وزیرستان سے موصول ہونے والی خفیہ اداروں کی معلومات سے ظاہر ہوتا ہے کہ الیاس کشمیری مرچکا ہے۔ ”98 فیصد امکان ہے کہ وہ مرچکا ہے ۔ تاہم ہمارے پاس لاش یا پھر ڈی این اے کا نمونہ نہیں ہے جس سے اُس کی موت کی تصدیق ہو سکے ۔اور ہمیں ان ٹھوس شواہد کی تلاش ہے۔ “
ایبٹ آباد میں خفیہ آپریشن میں اُسامہ بن لادن کی ہلاکت کے بعد الیاس کشمیری کی موت امریکہ کے لیے القاعدہ کے خلاف کارروائیوں میں ایک بڑی کامیابی قرار دی جارہی ہے کیونکہ یہ شخص پاکستان میں تنظیم کا مبینہ آپریشنل کمانڈر تھا۔
پاکستانی حکام کے مطابق کشمیر ی جنوبی وزیرستان میں جمعہ کی شب اپنے ساتھیوں کے ساتھ ایک اجلاس میں مصروف تھا جب اُس پر مبینہ امریکی ڈرون طیارے سے میزائل داغے گئے۔
باور کیا جاتا ہے کہ الیاس کشمیری پاکستانی فوج کا ایک سابق افسر تھااور پاکستان میں کئی اہم اہداف پر دہشت گرد حملوں کا ماسٹرمائنڈ تھا، جبکہ نومبر 2008ء میں بھارت کے شہر ممبئی میں ہونے والے دہشت گردانہ حملوں کا منصوبہ بھی اُسی کا تیارکردہ تھا۔ گزشتہ ماہ کراچی میں پاکستانی نیوی کی اہم تنصیب مہران بیس پر حملہ بھی مبینہ طور پر کشمیری کے ساتھیوں نے کیا تھا۔
الیاس کشمیر ی حرکت الجہاد الاسلامی نامی کالعدم تنظیم کا سربراہ تھا جو القاعدہ کی اتحادی ہے۔ پاکستانی میڈیا کو اتوار بھیجے گئے بیان میں تنظیم کے ترجمان نے تصدیق کی ہے کہ اُن کا لیڈر ہلاک ہو گیا ہے اور جلد اُس کی موت کا بدلہ امریکہ سے لیا جائے گا۔ تاہم اس بیان کی غیر جانبدار ذرائع سے تصدیق نہیں ہو سکی ہے۔
ذرائع ابلاغ نے ستمبر 2009 میں بھی پاکستان میں دہشت گردی کے بڑے واقعات کے اس 47 سالہ مبینہ منصوبہ ساز کی شمالی وزیرستان میں ایک ڈرون حملے میں ہلاکت کی خبریں شائع کی تھیں۔ تاہم بعد میں الیاس کشمیری نے خودان اطلاعات کی تردید کی تھی اور اس کا یہ انٹرویو ایشیاء ٹائمز آن لائن نیوز ایجنسی کے صحافی سید سلیم شہزاد نے شائع کیا تھا۔
یہ پاکستانی صحافی گزشتہ ماہ اسلام آباد سے لاپتا ہوگیا تھا اور دو روز بعدپولیس کو اُس کی لاش منڈی بہاؤالدین سے ملی ۔ مقامی اور بین الاقوامی صحافتی تنظیمیں سلیم شہزاد کے” بہیمانہ “قتل پر مسلسل سراپا احتجاج ہیں اور اُن کا الزام ہے کہ یہ کام پاکستانی خفیہ ایجنسی آئی ایس آئی کا ہے۔
لیکن اس ادارے نے ایک بیان میں ان الزامات کی تردید کرتے ہوئے اسے آئی ایس آئی کو بدنام کرنے کی سازش کاحصہ قرار دیا ہے۔
بعض اطلاعات کے مطابق پاکستانی کشمیر سے تعلق رکھنے والا القاعدہ کا خطرناک ترین لیڈر مانا جاتا ہے اور یہ پاکستانی فوج کے کمانڈو یونٹ کا حصہ تھا اور 1970ء اور 1980ء کی دہائی میں افغانستان پر سویت افواج کے قبضے کے خلاف برسرپیکار مجاہدین کو تربیت دیتا تھا۔ لیکن ایشیاء ٹائمز کو دیے گئے انٹرویو
میں الیاس کشمیر ی نے ان دعوؤں کی تردید کی تھی کہ وہ پاکستانی فوج کا حصہ رہ چکا ہے۔
اطلاعات کے مطابق دہشت گردوں کے اس مبینہ سرغنہ کی ایک آنکھ اور شہادت کی انگلی لڑائی میں ضائع ہو چکی ہے۔
افغانستان سے روسی افواج کے انخلاء کے بعد الیاس کشمیری بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں علیحدگی پسندوں کی تحریک میں شامل ہوگیا اور بعد میں اُسے حرکت الجہاد الاسلامی کی خصوصی 313 بریگیڈ کا کمانڈر بنا دیا گیا جس نے مبینہ طور پر پاکستانی خفیہ ایجنسی کے تعاون سے بھارت میں اہم اہداف پر حملے بھی کیے۔