پاکستان کی سپریم کورٹ نے ترک مبلغ فتح اللہ گولن کی تنظیم اور اس سے مبینہ طور پر وابستہ 'پاک ترک ایجوکیشن فاؤنڈیشن' کو کالعدم قرار دیتے ہوئے وزارتِ داخلہ کو دونوں تنظیموں کو دہشت گرد قرار دینے کی باضابطہ کارروائی کرنے کا حکم دیا ہے۔
چیف جسٹس ثاقب نثار کی سربراہی میں قائم تین رکنی بینچ نے یہ فیصلہ جمعرات کو ایک عام پاکستانی شہری کی طرف سے دائر درخواست پر سنایا۔
شہری نے عدالت عظمیٰ سے پاک ترک اسکول چلانے والی تنظیم کو دہشت گرد قرار دینے اور اسکولوں کا کنٹرول ترکی کی معارف فاؤنڈیشن کے حوالے کرنے کی استدعا کی تھی۔
عدالتِ عظمیٰ نے 15 صفحات پر مشتمل اپنے فیصلے میں پاک ترک ایجوکیشن فاؤنڈیشن کے تمام منقولہ اور غیرمنقولہ اثاثے اور تنظیم کے تحت ملک بھر میں چلنے والے 28 اسکولوں کا کنٹرول ترک معارف فاؤنڈیشن کے حوالے کرنے کا حکم دیا ہے۔
عدالتِ عظمیٰ کے فیصلے کے مطابق پاک ترک اسکول فاؤنڈیشن کا تعلق ترک مبلغ فتح اللہ گولن کی تحریک سے ہے جسے ترک حکومت ایک دہشت گرد تنظیم قرار دے چکی ہے۔
درخواست کی سماعت کے دوران پاک ترک فاؤنڈیشن کے وکیل سردار اعجاز اسحاق نے عدالت میں مؤقف اختیار کیا تھا کہ ان کی فاؤنڈیشن ایک دہشت گرد تنظیم نہیں ہے اور اس کا فتح اللہ گولن کی تنظیم سے کوئی تعلق نہیں۔
وکیل کا موقف تھا کہ درخواست گزار کے الزامات کا محرک سیاسی ہے۔
سردار اعجاز نے عدالت کے روبرو کہا تھا کہ ترک حکومت کے فیصلے کو جواز بنا کر پاک ترک فاؤنڈیشن کے خلاف کارروائی کا کوئی جواز نہیں جو ان کے بقول پاکستانی قوانین کے تحت قائم کی گئی ہے۔
دورانِ سماعت حکومتِ پاکستان نے عدالت میں مؤقف اختیار کیا تھا کہ ترکی کی حکومت فتح اللہ گولن کی تنظیم اور اس سے وابستہ اداروں بشمول پاک ترک فاؤنڈیشن کو دہشت گرد قرار دے چکی ہے جس کی تائید اسلامی تعاون تٖنظیم (او آئی سی) نے بھی کی ہے اور ایسا کرنا پاکستان کے لیے بھی ضروری ہے۔
ترک حکومت کا الزام ہے کہ جولائی 2016ء میں ہونے والی فوجی بغاوت میں فتح اللہ گولن اور ان کے حامی ملوث تھے۔
لیکن فتح اللہ گولن اور ان کی تنظیم خود پر لگائے گئے الزامات کو سختی سے مسترد کرتے ہوئے کہہ چکے ہیں کہ اُن کا ترکی میں بغاوت کی کوشش سے کوئی تعلق نہیں تھا۔
ترکی پاکستان سے یہ مطالبہ کرتا رہا ہے کہ وہ فتح اللہ گولن کے تنظیم اور اس سے وابستہ اداروں کو دہشت گرد قرار دے۔