پاکستان کی داخلی سلامتی کے صورت حال کا جائزہ لینے کے لیے پیر کو اسلام آباد میں ملک کی اعلیٰ سیاسی و عسکری قیات کا اجلاس ہوا۔
ایک سرکاری مختصر سرکاری بیان کے مطابق وزیراعظم نواز کی صدارت میں ہونے والے اس اجلاس میں فوج کی سربراہ جنرل راحیل شریف، آئی ایس آئی کے ڈائریکٹر جنرل لیفٹنیٹ جنرل رضوان اختر کے علاوہ وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان اور وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے بھی شرکت کی۔
یہ اجلاس ایک ایسے وقت ہوا، جب آبادی کے لحاظ سے ملک کے سب سے بڑے صوبے پنجاب میں سکیورٹی فورسز اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کی مشتبہ دہشت گردوں کے خلاف کارروائیاں جاری ہیں۔
تاہم پیر کو ہونے والے اس اجلاس کے بعد سرکاری طور پر یہ نہیں بتایا گیا کہ کیا پنجاب میں جاری کارروائیوں پر بھی بات چیت ہوئی یا نہیں۔
واضح رہے کہ پنجاب میں انٹیلی جنس معلومات کے بنیاد پر فوج اور رینجرز کی ان کارروائیوں کا حکم 27 مارچ کو لاہور میں ایک پارک میں ہوئے مہلک خود کش حملے کے بعد جنرل راحیل شریف کی طرف سے دیا گیا تھا۔
اس واقعہ میں ستر سے زائد افراد ہلاک ہوئے جن میں خواتین اور بچے بھی شامل تھیں۔
لاہور میں ہونے والے خودکش حملے کے بعد کئی حلقوں کی طرف سے صوبہ پنجاب میں مشتبہ دہشت گردوں کے خلاف بھرپور سیکورٹی آپریشنز کے مطالبات سامنے آنا شروع ہو گئے۔
دفاعی امور کے تجزیہ کار اکرام سہگل نے وائس آف امریکہ سے اس بارے میں گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ پنجاب میں بھی عسکریت پسند عناصر موجود ہیں اور ان کے خلاف بھی اس طرح کارروائی ہونی چاہیئے جس طرح باقی صوبوں میں ہو رہی ہے۔
" ان (عسکریت پسندوں) کے پنجاب میں بھی خفیہ ٹھکانے ہیں اور وہ کچھ عرصے کے لیے خطرہ رہیں گے اور جب سندھ میں آپریشن شروع ہوا تو پنجاب میں بھی شروع کرنا چاہیئے تھا لیکن دیر آید درست آید اب اس کو روکنا نہیں ہو گا اس کا جاری رکھنا ہو گا"۔
پاکستان کے سابق سیکرٹری داخلہ تسنیم نورانی کا کہنا ہے کہ پنجاب رینجرز کی کارروائیوں پر صوبائی حکومت کو بظاہر کچھ تحفظات ہیں تاہم ان کے بقول اس معاملے کو مشاورت سے حل کیا جا سکتا ہے۔
پاکستانی حکام ملک میں دہشت گردی کے حالیہ کے واقعات کو شدت پسندوں کے خلاف کارروائیوں کا ردعمل قرار دیتے ہیں تاہم مبصرین کا ماننا ہے دہشت گردوں کی طرف سے عام شہریوں کو ہدف بنانے سے روکنے کے لیے ان کے خلاف پنجاب سمیت ملک بھر میں بھر پور کارروائیاں ضروری ہیں۔