کوئٹہ —
پاکستان کے صوبہ بلوچستان میں منگل کو ایک ریل گاڑی میں بم دھماکے سے کم ازکم 14 افراد ہلاک اور 40 سے زائد زخمی ہوگئے۔
حکام کے مطابق کوئٹہ سے راولپنڈی جانے والے جعفر ایکسپریس جیسے ہی سبی ریلوے اسٹیشن پر پہنچی تو اس کی ایک بوگی میں زوردار دھماکا ہوا۔
دھماکے سے گاڑی کے ڈبوں میں آگ بھڑک اٹھی جس سے تین بوگیاں بری طرح متاثر ہوئیں۔
پولیس اور امدادی ٹیموں نے جائے وقوع سے زخمیوں کو اسپتال منتقل کیا جہاں بعض کی حالت تشویشناک ہونے کی وجہ سے ہلاکتوں میں اضافے کا خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے۔
سبی کے ڈپٹی کمشنر سہیل الرحمن نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں بتایا کہ ہلاک و زخمی ہونے والوں میں خواتین اور بچے بھی شامل ہیں۔
’’لاشیں بری طرح جھلس چکی ہیں اور ان کی شناخت بھی بہت مشکل ہے، ایک خاتون اور پانچ بچوں کا تو پتا چلا ہے کہ یہ ان کی لاشیں ہیں ابھی باقی کی شناخت ذرا مشکل ہے۔‘‘
اُدھر بلوچ یونائیٹڈ آرمی نامی کالعدم تنظیم نے اس دھماکے کی ذمہ داری قبول کرتے ہوئے اسے قلات، نوشکی اور دیگر بلوچ علاقوں میں سکیورٹی فورسز کے آپریشن کا ردعمل قرار دیا۔
تنظیم نے ایسے مزید حملے کرنے کی دھمکی بھی دی ہے۔
بلوچستان میں اس سے قبل بھی مشتبہ شدت پسند ریل گاڑیوں اور ریلوے لائنز کو بم دھماکوں اور راکٹ حملوں کا نشانہ بناتے رہے ہیں۔
وفاقی وزیر ریلوے سعد رفیق نے مقامی ذرائع ابلاغ کو بتایا کہ ریلوے لائنوں کی حفاظت کے ساتھ ساتھ گاڑیوں میں سکیورٹی انتظامات کو بھی بڑھایا گیا ہے اور اس تازہ واقعے کی تحقیقات شروع کر دی گئی ہیں کہ دھماکا خیز مواد گاڑی کے ڈبے میں کیسے پہنچا۔
انھوں نے معصوم شہریوں پر حملہ کرنے والے عناصر کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ ان کے خلاف کارروائیاں جاری رکھی جائیں گی۔
یہ تازہ واقعہ ایک ایسے وقت پیش آیا جب ایک روز قبل ہی بلوچستان کے ضلع خضدار کے سرحدی علاقوں میں سکیورٹی فورسز نے مشتبہ بلوچ ’مزاحمت کاروں‘ کے خلاف کارروائی کے دوران 30 افراد کو ہلاک کرنے کا دعویٰ کیا تھا۔
ان کارروائیوں میں بڑی مقدار میں اسلحہ و بارود بھی سکیورٹی فورسز نے قبضے میں لیا۔
حکام کے مطابق کوئٹہ سے راولپنڈی جانے والے جعفر ایکسپریس جیسے ہی سبی ریلوے اسٹیشن پر پہنچی تو اس کی ایک بوگی میں زوردار دھماکا ہوا۔
دھماکے سے گاڑی کے ڈبوں میں آگ بھڑک اٹھی جس سے تین بوگیاں بری طرح متاثر ہوئیں۔
پولیس اور امدادی ٹیموں نے جائے وقوع سے زخمیوں کو اسپتال منتقل کیا جہاں بعض کی حالت تشویشناک ہونے کی وجہ سے ہلاکتوں میں اضافے کا خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے۔
سبی کے ڈپٹی کمشنر سہیل الرحمن نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں بتایا کہ ہلاک و زخمی ہونے والوں میں خواتین اور بچے بھی شامل ہیں۔
’’لاشیں بری طرح جھلس چکی ہیں اور ان کی شناخت بھی بہت مشکل ہے، ایک خاتون اور پانچ بچوں کا تو پتا چلا ہے کہ یہ ان کی لاشیں ہیں ابھی باقی کی شناخت ذرا مشکل ہے۔‘‘
اُدھر بلوچ یونائیٹڈ آرمی نامی کالعدم تنظیم نے اس دھماکے کی ذمہ داری قبول کرتے ہوئے اسے قلات، نوشکی اور دیگر بلوچ علاقوں میں سکیورٹی فورسز کے آپریشن کا ردعمل قرار دیا۔
تنظیم نے ایسے مزید حملے کرنے کی دھمکی بھی دی ہے۔
بلوچستان میں اس سے قبل بھی مشتبہ شدت پسند ریل گاڑیوں اور ریلوے لائنز کو بم دھماکوں اور راکٹ حملوں کا نشانہ بناتے رہے ہیں۔
وفاقی وزیر ریلوے سعد رفیق نے مقامی ذرائع ابلاغ کو بتایا کہ ریلوے لائنوں کی حفاظت کے ساتھ ساتھ گاڑیوں میں سکیورٹی انتظامات کو بھی بڑھایا گیا ہے اور اس تازہ واقعے کی تحقیقات شروع کر دی گئی ہیں کہ دھماکا خیز مواد گاڑی کے ڈبے میں کیسے پہنچا۔
انھوں نے معصوم شہریوں پر حملہ کرنے والے عناصر کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ ان کے خلاف کارروائیاں جاری رکھی جائیں گی۔
یہ تازہ واقعہ ایک ایسے وقت پیش آیا جب ایک روز قبل ہی بلوچستان کے ضلع خضدار کے سرحدی علاقوں میں سکیورٹی فورسز نے مشتبہ بلوچ ’مزاحمت کاروں‘ کے خلاف کارروائی کے دوران 30 افراد کو ہلاک کرنے کا دعویٰ کیا تھا۔
ان کارروائیوں میں بڑی مقدار میں اسلحہ و بارود بھی سکیورٹی فورسز نے قبضے میں لیا۔