امریکہ کے قانون سازوں کے ایک اعلیٰ سطحی وفد نے پاکستان کی عسکری قیادت اور سیاسی حکومت کے عہدیداروں سے ملاقاتیں کی ہیں جن میں باہمی دلچسپی کے امور، خطے کی سلامتی اور افغانستان کی صورتحال جیسے معاملات زیر بحث آئے۔
امریکی سینیٹ کی آرمڈ سروسز کمیٹی کے سربراہ سینیٹر جان مکین کی سربراہی میں وفد نے اتوار کی شام اسلام آباد میں وزیراعظم کے مشیر برائے امور خارجہ سرتاج عزیز اور دیگر عہدیداروں سے ملاقات کی۔
پاکستان کے سرکاری ذرائع ابلاغ نے سرتاج عزیز کے حوالے سے بتایا کہ یہ ملاقات نتیجہ خیز اور تعمیری رہی جس میں ایف سولہ لڑاکا طیاروں کی خریداری اور افغانستان کی صورتحال جیسے امور زیر بحث آئے۔
مشیر خارجہ کا کہنا تھا کہ امریکی وفد نے افغانستان کے مصالحتی عمل میں پاکستان کے کردار کو سراہا۔
امریکی وفد کو افغان سرحد سے ملحقہ قبائلی علاقے شمالی وزیرستان کے مرکزی قصبے میران شاہ کا دورہ بھی کروایا گیا۔ سینیٹر جان مکین نے دہشت گردی کے خلاف پاکستانی فورسز کی کوششوں کی تعریف کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان اور امریکہ کا دشمن مشترک ہے۔
وفد نے اس سے قبل پاکستانی فوج کے سربراہ جنرل راحیل شریف سے ملاقات کی تھی۔ ایک سرکاری بیان کے مطابق ملاقات میں پاکستانی سپہ سالار نے پاک افغان سرحد کی موثر نگرانی پر زور دیتے ہوئے سرحد کے آرپار غیرقانونی نقل و حرکت روکنے کے اقدام پر تبادلہ خیال کیا۔
انھوں نے کہا کہ ایک مستحکم افغانستان، پاکستان کے مفاد میں ہے اور خطے میں امن و سلامتی کی کلید ان دونوں ملکوں کے تعلقات میں ہے۔
سینیٹر جان مکین کا کہنا تھا کہ پاکستان اور امریکہ کے تعلقات کو تمام جہتوں میں مضبوط بنانے کی ضرورت ہے اور خطے میں امن کے حصول کے لیے تعاون کو زیادہ سے زیادہ مربوط بنایا جانا چاہیے۔
امریکی قانون سازوں کا یہ دورہ ایک ایسے وقت ہو رہا ہے جب حالیہ مہینوں میں پیش آنے والے بعض واقعات کے باعث پاکستان اور امریکہ کے تعلقات میں ایک بار پھر تناؤ دیکھا جا رہا ہے۔
سینیئر تجزیہ کار رحیم اللہ یوسفزئی نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ وفود کے تبادلوں اور بات چیت کا سلسلہ جاری رکھنے سے باہمی اختلافات کو کم کر کے ماحول کو سازگار بنانے میں مدد ملتی ہے لیکن ان کا کہنا تھا کہ اس دورے سے دونوں ملکوں کے تعلقات میں کسی فوری پیش رفت کی توقع نہیں کی جا سکتی۔
امریکہ نے حال ہی میں پاکستان کو آٹھ ایف سولہ لڑاکا طیاروں کی فروخت کے لیے زراعانت روکنے اور امدادی رقم کو بھی مشروط کرنے جیسے اقدام کیے تھے اور مئی میں بلوچستان کے علاقے میں امریکی ڈرون طیارے سے افغان طالبان کے امیر ملا اختر منصور کو نشانہ بنایا گیا تھا۔
ان واقعات کے تناظر میں ملک کے مقتدر حلقوں سے یہ کہہ کر دوطرفہ تعلقات میں تناؤ کا اظہار کیا جاتا رہا ہے کہ انسداد دہشت گردی کی جنگ میں قریبی اتحادی ہونے کے ناطے اسلام آباد کے ساتھ واشنگٹن کا رویہ مناسب نہیں۔
تاہم حکومت یہ کہتی ہے کہ وہ اپنے تحفظات اور تشویش سے امریکی انتظامیہ کو آگاہ کرتی آرہی ہے جب کہ امریکہ کا کہنا ہے کہ وہ پاکستان کے ساتھ اپنے تعلقات کو اہمیت دیتا ہے اور اس کے ساتھ مل کر کام کرنے کے لیے پرعزم ہے۔