پاکستان اور امریکہ کے تعلقات سے متعلق صورت حال کا جائزہ لینے کے لیے اسلام آباد میں پیر کو ایک اعلیٰ سطحی اجلاس منعقد ہوا۔
ایوانِ صدر میں ہونے والے اس اجلاس کی سربراہی صدر آصف علی زرداری اور وزیرِ اعظم یوسف رضا گیلانی نے کی، جب کہ اہم وزراء کے علاوہ فوج کے سربراہ جنرل اشفاق پرویز کیانی بھی اس میں شریک ہوئے۔
اجلاس میں پاک امریکہ تعلقات کا جائزہ لینے کے ساتھ ساتھ خطے کی سلامتی، افغانستان کی صورت حال اور نیٹو افواج کو رسد کی ترسیل کے لیے پاکستانی سرحد دوبارہ کھولنے کے معاملات بھی زیر بحث آئے۔
یہ اعلٰی سطحی اجلاس ایک ایسے وقت ہوا جب اسلام آباد میں موجود ایک امریکی وفد مسلسل کئی روز سے پاکستانی حکام کے ساتھ پارلیمانی سفارشات کی روشنی میں نیٹو سپلائی لائنز کی بحالی سمیت دیگرمتنازع اُمور پر مذاکرات میں مصروف ہے۔
لیکن بات چیت سے باخبر سفارتی ذرائع کا کہنا ہے کہ اشتراک عمل سے متعلق پاکستان کی پارلیمان کے وضع کردہ رہنما اصولوں کی روشنی میں بات چیت انتہائی مشکلات سے دوچار ہے۔
ایوانِ صدر میں اجلاس میں شرکت سے قبل وزیرِ اعظم یوسف رضا گیلانی نے ایک تقریب کے بعد صحافیوں کو بتایا کہ نیٹو سپلائی لائنز کی بحالی کے لیے امریکہ کے ساتھ پاکستان ’’انتہائی سنجیدگی‘‘ سے مذاکرات کر رہا ہے۔
’’پارلیمانی سفارشات کی روشنی میں بات چیت میں پیش رفت ہو رہی ہے اور یہ تعمیری مذاکرات نتیجہ خیز ثابت ہوں گے۔ ہم امریکہ کے ساتھ اختلافی اُمور کو ہمشیہ کے لیے حل کرنا چاہتے ہیں۔‘‘
پاکستانی پارلیمان کی سفارشات میں سلالہ چیک پوسٹ پر نیٹو کے مہلک حملے کے لیے امریکی معافی اور ڈرون حملوں کی بندش کے مطالبات سرفہرست ہیں۔
تاہم سفارتی ذرائع کے مطابق امریکی حکام ان دونوں شرائط کو تسلیم کرنے سے گریزاں ہیں جب کہ نیٹو سپلائی لائنز دوبارہ بحال ہونے پر پاکستان مستقبل میں افغانستان رسد لے جانے والے ٹرکوں پر بھاری محصولات کا تقاضا بھی کر رہا ہے جو امریکی مذاکرات کاروں کے لیے بظاہر قابل قبول نہیں۔
مبصرین کا خیال ہے کہ امریکی انتظامیہ سلالہ حملے پر معافی مانگنے سے ہچکچکا رہی ہے کیونکہ یہ اقدام کانگریس اور رپبلیکن پارٹی کے ممکنہ صدارتی امید وار میٹ رومنی کی طرف سے صدر اوباما پر کڑی تنقید کو دعوت دے سکتا ہے۔
امریکہ میں ان دنوں پاکستان مخالف جذبات میں بھی اضافہ ہوا ہے جس کی وجہ مبینہ طور پر پاکستانی علاقوں میں موجود عسکریت پسندوں کی جانب سے سرحد پار افغانستان میں امریکہ اور نیٹو افواج پر مہلک حملے ہیں۔ تاہم پاکستانی حکام ان الزامات کو رد کرتے ہیں۔
اُدھر وزیر خارجہ حنا ربانی کھر نے لندن سے واپسی پر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے رکن کی حیثیت سے پاکستان اپنی ذمہ داریوں سے بخوبی آگاہ ہے۔
اُنھوں نے کہا کہ ذاتی طور پر ان کا ماننا ہے کہ نیٹو کو رسد کی ترسیل کے لیے پاکستان کو اپنی سرحد کھول دینی چاہیئے کیونکہ اس راہداری کو غیر معینہ مدت کے لیے بند نہیں رکھا جاسکتا۔
وزیر خارجہ کا کہنا تھا کہ افغانستان میں بین الاقوامی آپریشن کو آسان بنانا پاکستان کے مفاد میں ہے اور نیٹو میں شامل کئی دوست ممالک بھی رسد کی ترسیل کی بندش سے متاثر ہو رہے ہیں۔
دفاعی ماہرین کا کہنا ہے کہ نیٹو سپلائی لائن کی بحالی سمیت دیگر اُمور پر اتفاق رائے سے جہاں پاکستان کی شکاگو کانفرنس میں شرکت کی راہ ہموار ہوگی وہیں گزشتہ ایک سال سے رکی ہوئی ایک ارب ڈالرسے زائد امریکی فوجی امداد بھی بحال ہونے کا امکان ہے۔